نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری

نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری
by ریاض خیرآبادی

نہ راس آئی ہم کو جوانی ہماری
کٹے کیا برس زندگانی ہماری

عدو کی شب وصل سو بار صدقے
شب غم ہے کتنی سہانی ہماری

دغا دے رہے ہیں دم نزع تم کو
یہ ہے وقت رخصت نشانی ہماری

کیے میں نے شکوے تو وہ ہنس کے بولے
عدو پر بھی ہے مہربانی ہماری

انہیں نے تو دیوانہ ہم کو بنایا
وہی اب کریں پاسبانی ہماری

یہ ساقی نے ساغر میں کیا چیز دے دی
کہ توبہ ہوئی پانی پانی ہماری

ستاتے ہیں ہم بھی حسینوں کو کیا کیا
ستاتی ہے ہم کو جوانی ہماری

لگی تھی جو مے منہ سے بھر توبہ کیوں کی
ہوئی تلخ کیا زندگانی ہماری

کیا جھوٹ وعدہ کریں ہم جو تجھ سے
ترے کام آئے جوانی ہماری

بہت بے اثر تم اسے جانتے تھے
زبانوں پر اب ہے کہانی ہماری

قفس دست صیاد میں ہم قفس میں
یہ کام آئی ہے خوش بیانی ہماری

ریاضؔ آپ ہم قدرداں اپنے نکلے
کسی نے نہ کی قدردانی ہماری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse