نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو

نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
by اختر انصاری اکبرآبادی

نہ را ابتدا سمجھو نہ راز انتہا سمجھو
نظر والوں تمہیں کرنا ہے اب دنیا میں کیا سمجھو

طلب میں صدق ہے تو ایک دن منزل پہ پہنچو گے
قدم آگے بڑھاؤ خود کو اپنا رہنما سمجھو

یہ کیا انداز ہے اتنا گریز اہل تمنا سے
خدا توفیق دے تو اہل دل کا مدعا سمجھو

تمہارے ہر اشارے پر سر تسلیم خم لیکن
گزارش ہے کہ جذبات محبت کو ذرا سمجھو

ہو کوئی موج طوفاں یا ہوائے تند کا جھونکا
جو پہنچا دے لب ساحل اسی کو ناخدا سمجھو

جسے دیکھو وہی بدمست ہی مغرور ہے ہمدم
کوئی بندہ نہیں دنیا میں کس کس کو خدا سمجھو

یہاں رہبر کے پردے میں بہت رہزن ہیں اے اخترؔ
رہو دور اس سے تم جس کو وفا نا آشنا سمجھو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse