نہ رکھے جب کہ وہ بے باک لحاظ

نہ رکھے جب کہ وہ بے باک لحاظ
by مرزا رحیم الدین حیا
331137نہ رکھے جب کہ وہ بے باک لحاظمرزا رحیم الدین حیا

نہ رکھے جب کہ وہ بے باک لحاظ
کہئے عاشق کو رہے خاک لحاظ

تابکے شکوۂ گردش نہ کریں
کب تک اے گردش افلاک لحاظ

روبرو غیر کے رونا کیا ہے
چاہیے دیدۂ نمناک لحاظ

اب کے اک شور نمک پر ہوگا
نہ رکھیں گے یہ جگر چاک لحاظ

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا دم قتل
دیکھ اپنا بت سفاک لحاظ

کیوں نہ پامال ہوں ہم جب کہ ترا
نہ کرے توسن چالاک لحاظ

چشم مخمور پہ ہر دم ہے نگاہ
کیا رہے پی کے مے تاک لحاظ

اے حیاؔ اب نہ کہوں کیونکر حال
جاں لبوں پر ہے کروں خاک لحاظ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.