نہ رہا گل نہ خار ہی آخر

نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
by میر حسن دہلوی

نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
اک رہا حسن یار ہی آخر

اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی واں بہار ہی آخر

آتش دل پہ آب لے دوڑا
دیدۂ اشک بار ہی آخر

ضد سے ناصح کی میں نے کر ڈالا
جیب کو تار تار ہی آخر

کیوں نہ ہوں تیرے در پہ ہونا ہے
ایک دن تو غبار ہی آخر

کام آیا نہ جائے شمع مزار
یہ دل داغدار ہی آخر

شمع رو پر مثال پروانہ
ہو گئے ہم نثار ہی آخر

وہ نہ آیا ادھر حسنؔ افسوس
رہ گیا انتظار ہی آخر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse