نہ ساقی ہے نہ مینا ہے نہ بر میں یار جانی ہے
نہ ساقی ہے نہ مینا ہے نہ بر میں یار جانی ہے
حقیقت میں نہیں جیتے بہ صورت زندگانی ہے
نوازش پر مزاج آیا جہاں دیں گالیاں لاکھوں
کرم ہے آپ کا طرفہ عجائب مہربانی ہے
سنو ٹک گوش دل سے قصۂ جاں سوز کو میرے
کہ جگ بیتی نہیں ہے آپ بیتی یہ کہانی ہے
عبث ہے سوچ تجھ کو نامہ بر دے شوق سے مجھ کو
کوئی جھڑکی کوئی گالی اگر اس کی زبانی ہے
تو اپنے ہاتھ کا چھلا جو ہر اک سے چھپاتا ہے
بتا افسوسؔ کس پردہ نشیں کی یہ نشانی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |