نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی
نہ سرخی غنچۂ گل میں ترے دہن کی سی
نہ یاسمن میں صفائی ترے بدن کی سی
میں کیوں نہ پھولوں کہ اس گل بدن کے آنے سے
بہار آج مرے گھر میں ہے چمن کی سی
یہ برق ابر میں دیکھے سے یاد آتی ہے
جھلک کسی کے دوپٹے میں نورتن کی سی
گلوں کے رنگ کو کیا دیکھتے ہو اے خوباں
یہ رنگتیں ہیں تمہارے ہی پیرہن کی سی
جو دل تھا وصل میں آباد تیرے ہجر میں آہ
بنی ہے شکل اب اس کی اجاڑ بن کی سی
تو اپنے تن کو نہ دے نسترن سے اب تشبیہ
بھلا تو دیکھ یہ نرمی ہے تیرے تن کی سی
ترا جو پاؤں کا تلوا ہے بزم مخمل سا
صفائی اس میں ہے کہیے تو نسترن کی سی
نظیرؔ ایک غزل اس زمیں میں اور بھی لکھ
کہ اب تو کم ہے روانی ترے سخن کی سی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |