نہ سمجھے دل فریب آرزو کو
نہ سمجھے دل فریب آرزو کو
نہ ہم چھوڑیں تمہاری جستجو کو
تری تلوار سے اے شاہ خوباں
محبت ہو گئی ہے ہر گلو کو
وہ منکر ہو نہیں سکتا فسوں کا
سنا ہو جس نے تیری گفتگو کو
تغافل اس کو کہتے ہیں کہ اس نے
مجھے دیکھا نہ محفل میں عدو کو
نہیں پانی تو مے خانے میں اے شیخ
جو کچھ موجود ہے لاؤں وضو کو
سمجھتا ہی نہیں ہے کچھ وہ بد خو
نہ خود مجھ کو نہ میری آرزو کو
نہ بھولا گھر کے اعدا میں بھی حسرتؔ
ترے فرمودۂ لاتقنطو کو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |