نہ سہی گر انہیں خیال نہیں
نہ سہی گر انہیں خیال نہیں
کہ ہمارا بھی اب وہ حال نہیں
یاد انہیں وعدۂ وصال نہیں
کب کیا تھا یہی خیال نہیں
ایسے بگڑے وہ سن کے شوق کی بات
آج تک ہم سے بول چال نہیں
مجھ کو اب غم یہ ہے کہ بعد مرے
خاطر یار بے ملال نہیں
عفو حق کا ہے میکشوں پہ نزول
ریزش ابر برشگال نہیں
ہم پہ کیوں عرض حال دل پہ عتاب
ایلچی کو کہیں زوال نہیں
سن کے مجھ سے وہ خواہش پابوس
ہنس کے کہنے لگے مجال نہیں
دل کو ہے یاد شوق کا وہ ہنر
جس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں
آپ نادم نہ ہوں کہ حسرتؔ سے
شکوۂ غم کا احتمال نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |