نہ شبستاں ہے نہ اب شمع شبستاں کوئی
نہ شبستاں ہے نہ اب شمع شبستاں کوئی
گھر کا یہ حال ہے جیسے ہو بیاباں کوئی
بن کے پیکاں رہے ایسا نہیں ارماں کوئی
بن کے ارماں رہے ایسا نہیں پیکاں کوئی
ہے شب وصل کہاں ہائے یہ کافر انداز
ہو رہا ہے مری چھیڑوں سے پریشاں کوئی
جان پڑ جائے مری آرزوئے مردہ میں
جھوٹا سچا لب جاں بخش سے پیماں کوئی
نہ اٹھوں دل میں لیے یاد ستم حشر کے دن
اس ادا سے سر تربت ہے پشیماں کوئی
کہہ گئے نیند گئی رات کا آرام گیا
اس کی تقدیر جو ہو آپ کا مہماں کوئی
شرر سنگ سے اچھی ہے پری شیشے کی
ان بتوں کا نہ بنے بندۂ احساں کوئی
کسی جنگل میں بسے جا کے گلی سے تیری
نظر آتا نہیں اب چاک گریباں کوئی
جھانکنے کو ادھر آئی نہ کبھی باد بہار
جب سے ہم آئے نہ آیا سوئے زنداں کوئی
چھو گئی گوشۂ دامن سے تو چھا جائے گی
خاک سے میری بچائے ہوئے داماں کوئی
غیر کے سر کی قسم ہنس کے دم وعدۂ وصل
اے میں صدقے ترے کیا یہ بھی ہے آساں کوئی
گل کتر جائے کوئی پائے حنائی سے ذرا
میرے مدفن کو بنا جائے گلستاں کوئی
رہیں سونے میں لٹیں زلفوں کی یوں ہی رخ پر
نہ ہٹائے نہ چھوئے زلف پریشاں کوئی
بات رہ جائے مری اس کے گنہ گاروں میں
نہ بچے نامۂ اعمال سے عصیاں کوئی
دخت رز کو نہ زیاں دی نہ کبھی توبہ کی
عہد ناصح سے نہ پیمانے سے پیماں کوئی
لے جبیں کے کوئی بوسے نہ کہیں سوتے میں
چن نہ لے ہونٹھوں سے سب آپ کے افشاں کوئی
ابھرے جوبن کے لئے آپ کو آخر نہ ملا
خم گردن کے سوا اور نگہباں کوئی
جو جلاتا ہے مجھے اس سے عوض لینے کو
دے دے اک چاند کا ٹکڑا شب ہجراں کوئی
گھر کا کیا ذکر ہے ہم دل میں اٹھا کر رکھ لیں
ہم کو مل جائے جو چھوٹا سا بیاباں کوئی
آرسی آئنہ اب دونوں نظر سے اترے
دل حیراں ہے کوئی دیدۂ حیراں کوئی
دور سے کیا نگہ شوق نے چھیڑا ہے انہیں
اپنی زلفوں کی طرح کیوں ہے پریشاں کوئی
حشر کے روز رہے لطف شب وصل ریاضؔ
عاقبت کے لئے اب چاہیے ساماں کوئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |