نہ شوخیوں سے کرے ہیں وہ چشم گلگوں رقص
نہ شوخیوں سے کرے ہیں وہ چشم گلگوں رقص
کہ ان کے پینے سے کرتا ہے واں مرا خوں رقص
نہ پیچ و تاب ہوا سے ہے آب میں گرداب
کہ میرے اشک کے آگے کرے ہے جیجوں رقص
طواف سوختۂ عشق دیکھ لے اے شمع
کرے ہے جلنے سے آگے پتنگ مفتوں رقص
کرے ہے شعلۂ شمع سحر سا لب پہ مرے
اے آفتاب لقا خوش ہو جان محزوں رقص
مثال قبلہ نما فخر فکر عزلتؔ سے
کرے ہے مصرع روشن کے بیچ مضموں رقص
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |