نہ فلک ہوگا نہ یہ کوچۂ قاتل ہوگا
نہ فلک ہوگا نہ یہ کوچۂ قاتل ہوگا
مرے کہنے میں کسی دن جو مرا دل ہوگا
جب نمایاں وہ سوار رہ منزل ہوگا
نہ تو میں آپ میں ہوں گا نہ مرا دل ہوگا
آدھی رات آ گئی بس بس دل بے تاب سنبھل
ہم سمجھتے ہیں جو اس کرب کا حاصل ہوگا
رخصت اے وحشت تنہائی و غربت رخصت
خوف ہی کیا ہے جو ہم راہ مرے دل ہوگا
رات کا خواب نہیں جس کی ہر اک دے تعبیر
یہ وہ ارمان ہے پورا جو بہ مشکل ہوگا
تیرا کیا ذکر ہے زنداں کی ہلے گی دیوار
نالہ کش جب کوئی پابند سلاسل ہوگا
ٹال دیں میں نے یہ کہہ کہہ کے ضدیں بچپن کی
آئنہ بھی کوئی شے ہے جو مقابل ہوگا
ڈوبنے جائے گا شاید کوئی مایوس وصال
مجمع عام سنا ہے لب ساحل ہوگا
چودھواں سال اسے دیتا ہے مژدہ عالمؔ
لے مبارک ہو کہ اب تو مہ کامل ہوگا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |