نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
نہ لگا لے گئے جہاں دل کو
آہ لے جائیے کہاں دل کو
مجھ سے لے تو چلے ہو دیکھو پر
توڑیو مت کہیں میاں دل کو
آزما اور جس میں چاہے تو
صبر میں کر نہ امتحاں دل کو
یوں تو کیا بات ہے تری لیکن
وہ نہ نکلا جو تھا گماں دل کو
رکھ نہ تو اب دریغ نیم نگاہ
مار مت دیکھ نیم جاں دل کو
آہ کیا کیجے یاں بنایا ہے
دل گرفتہ ہی غنچہ ساں دل کو
مر گیا پس گیا نہ کی پر آہ
آفریں ایسے بے زباں دل کو
دشمنی تو ہی اس سے کرتا ہے
دوست رکھتا ہے اک جہاں دل کو
مہربانی تو کی نہ ظاہر میں
رکھئے بارے تو مہرباں دل کو
لیجئے گا نہ لیجئے گا پھر
دیکھیے تو سہی بتاں دل کو
آزمانا کہیں نہ سختی سے
دیکھیو میرے ناتواں دل کو
تو بھی جی میں اسے جگہ دیجو
منزلت تھی اثرؔ کے ہاں دل کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |