نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی
نہ مانی اس نے ایک بھی دل کی
دل ہی میں بات رہ گئی دل کی
گیسوئے یار میں یہ بات کہاں
اور ہی شے ہے برہمی دل کی
کھینچتے ہیں وہ تیر پہلو سے
کھوئے دیتے ہیں دل لگی دل کی
یوں وہ نکلے تڑپ کے پہلو سے
شکل آنکھوں میں پھر گئی دل کی
گھٹتی جاتی ہے ان کی مہر و وفا
بڑھتی جاتی ہے بے خودی دل کی
چھوڑ دو ان سے رسم و راہ نسیمؔ
چاہتے ہو جو بہتری دل کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |