نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی
نہ نکلا منہ سے کچھ نکلی نہ کچھ بھی قلب مضطر کی
کسی کے سامنے میں بن گیا تصویر پتھر کی
خدا سے کیوں نہ مانگوں واہ میں بندوں سے کیا مانگوں
مجھے مل جائے گی جو چیز ہے میرے مقدر کی
تصور چاہئے اے شیخ سب کا ایک ایما ہے
صدا ہے پردۂ ناقوس میں اللہ اکبر کی
دل راحت طلب کو قبر میں کیا بے قراری ہے
مجھے گھبرائے دیتی ہے اداسی اس نئے گھر کی
کلیجے میں ہزاروں داغ، دل میں حسرتیں لاکھوں
کمائی لے چلا ہوں ساتھ اپنے زندگی بھر کی
سنبھل کر دیکھنا آرائشوں کے بعد آئینہ
یہ آئینہ نہیں ہے اب یہ ٹکڑے ہے برابر کی
مرے اشعار شاعرؔ داغ و آصف جاہ سے پوچھو
کہ شاہ و جوہری ہی جانتے ہیں قدر گوہر کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |