نہ پوچھو کون ہیں کیوں راہ میں ناچار بیٹھے ہیں
نہ پوچھو کون ہیں کیوں راہ میں ناچار بیٹھے ہیں
مسافر ہیں سفر کرنے کی ہمت ہار بیٹھے ہیں
ادھر پہلو سے وہ اٹھے ادھر دنیا سے ہم اٹھے
چلو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی بیکار بیٹھے ہیں
کسے فرصت کہ فرض خدمت الفت بجا لائے
نہ تم بیکار بیٹھے ہو نہ ہم بیکار بیٹھے ہیں
جو اٹھے ہیں تو گرم جستجوئے دوست اٹھے ہیں
جو بیٹھے ہیں تو محو آرزوئے یار بیٹھے ہیں
مقام دستگیری ہے کہ تیرے رہرو الفت
ہزاروں جستجوئیں کر کے ہمت ہار بیٹھے ہیں
نہ پوچھو کون ہیں کیا مدعا ہے کچھ نہیں بابا
گدا ہیں اور زیر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
یہ ہو سکتا نہیں آزادؔ سے مے خانہ خالی ہو
وہ دیکھو کون بیٹھا ہے وہی سرکار بیٹھے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |