نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے
نہ پوچھو کہ قائمؔ کا کیا حال ہے
کچھ اک ڈھیر ہڈیوں کا یا کھال ہے
جو بیٹھے تو ہے روئے قالیں کا نقش
کھڑا ہو تو کاغذ کی تمثال ہے
کھٹکتا ہے پہلو میں یوں ہم نشیں
کہے تو یہ دل تیر کی بھال ہے
گرفتار ہے جو تری زلف کا
وہ ہر قید سے فارغ البال ہے
اٹھا روند ڈالے اک عالم کے دل
بھلا شوخ یہ بھی کوئی چال ہے
الجھتا ہے جی شیخ کی ریش دیکھ
وہ سچ ہے مثل بال جنجال ہے
دھڑکنے کا دل پر ہے گاہے ہجوم
گہے چشم گریہ کی پامال ہے
یہ گویا در دولت عشق پر
دل و دیدہ سامان گھڑیال ہے
خوش آئی ہے قائمؔ یہی گر زمیں
تو پھر کہہ نہ مضموں کا کیا کال ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |