نہ پوچھ گریۂ خوں کا ترے ہے کیا باعث
نہ پوچھ گریۂ خوں کا ترے ہے کیا باعث
سبب تو اور نہیں کچھ مگر ترا باعث
اگرچہ شیخ ہے پینا شراب فعل شنیع
پہ کیا کروں کہ کئی دن سے تھی ہوا باعث
دو چند گریہ کی تبرید سے ہوئی تب عشق
زیادتی کا مرض کی ہے یاں دوا باعث
نہ جرم اس کا ہے ثابت نہ کچھ مری تقصیر
خدا ہی جانے کہ رنجش کا کیا ہوا باعث
رہا میں اس سے گرفتہ اک عمر تک لیکن
کیا جو خوب تأمل تو کچھ نہ تھا باعث
طرح اس آب کی جو پیرنے سے ہو درہم
ہوئے ہیں میرے تشتت کے آشنا باعث
کبھو کھلا نہ دم سرد سے یہ دل قائمؔ
اگرچہ کھلنے کا غنچہ کے ہے صبا باعث
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |