نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے

نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے
by غمگین دہلوی

نہ پوچھ ہجر میں جو حال اب ہمارا ہے
امید وصل ہی پر ان دنوں گزارا ہے

نہ دیکھوں تجھ کو تو آتا نہیں کچھ آہ نظر
تو میری پتلی کا آنکھوں کی یار تارا ہے

مجھے جو بام پہ شب کو بلائے ہے وہ ماہ
مگر عروج پہ کیا ان دنوں ستارا ہے

یقین جان تو واعظ کہ دین و دنیا میں
بس اس کی صرف مجھے ذات کا سہارا ہے

عجب طرح سے نظر پڑ گیا مرے ہمدم
قیامت آہ وہ مکھڑا بھی پیارا پیارا ہے

مجھے جو دوستی ہے اس کو دشمنی مجھ سے
نہ اختیار ہے اس کا نہ میرا چارا ہے

کہا جو میں نے پلاتے ہو بزم میں سب کو
مگر ہمیں ہی نہیں کیا گنہ ہمارا ہے

تو بولے وہ کہ جسے چاہیں ہم پلائیں شراب
خوشی ہماری ترا اس میں کیا اجارا ہے

گیا وہ پردہ نشیں جب سے اپنے گھر غمگیںؔ
تمام خلق سے دل کو مرے کنارا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse