نہ پہنچا ساتھ یارانۂ سفر کی ناتوانی سے
نہ پہنچا ساتھ یارانۂ سفر کی ناتوانی سے
میں سر پٹکا کیا اک عمر سگ سخت جانی سے
ادا فہمان شوق وصل ہو طور تجلی پر
مزہ دیدار کا ملتا ہے بانگ لن ترانی سے
مرید مرشد ہمت ہوں میں میری طریقت میں
کفن بھی ساتھ لانا ننگ ہے دنیائے فانی سے
وہ سرگرم بیان سوزش داغ محبت ہوں
حضر کرتا ہے شعلہ بھی مری آتش بیانی سے
ہمارے غنچۂ دل کو تبسم کی نہ دی فرصت
رہا ہم کو یہ شکوہ لطمۂ باد خزانی سے
شراب عشق کا ساغر دیا ہے مجھ کو ساقی نے
نہ اٹھوں گا میں محشر کو بھی اپنی سرگرانی سے
ہمیں وہ راہ بتلائی ہے خضر عشق نے عیشیؔ
نشان رفتگاں پیدا ہے جس میں بے نشانی سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |