نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
عشق بتاں میں صبر خدا سے طلب کریں
دل خاک ہو گیا ہے تری رہ گزار میں
گر جا سکیں وہاں تو صبا سے طلب کریں
آخر خوشی تو عشق سے حاصل نہ کچھ ہوئی
ہم اب غم و الم ہی بلا سے طلب کریں
غمزے نے لے کے دل کو ادا کے کیا سپرد
غمزے سے دل کو لیں کہ ادا سے طلب کریں
دولت جو فقر کی ہے سو ہے اپنے دل کے پاس
وہ چیز یہ نہیں کہ گدا سے طلب کریں
دروازہ گو کھلا ہے اجابت کا پر حسنؔ
ہم کس کس آرزو کو خدا سے طلب کریں
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |