نیا سال (1941)
by سعادت حسن منٹو
325199نیا سال1941سعادت حسن منٹو

کیلنڈر کا آخری پتا جس پر موٹے حروف میں31 دسمبر چھپا ہوا تھا، ایک لمحہ کے اندر اس کی پتلی انگلیوں کی گرفت میں تھا۔ اب کیلنڈر ایک ٹنڈ منڈ درخت سا نظر آنے لگا۔ جس کی ٹہنیوں پر سے سارے پتے خزاں کی پھونکوں نے اڑا دیے ہوں۔ دیوار پر آویزاں کلاک ٹِک ٹِک کررہاتھا۔ کیلنڈر کا آخری پتا جو ڈیڑھ مربع انچ کاغذ کا ایک ٹکڑا تھا، اس کی پتلی انگلیوں میں یوں کانپ رہا تھا گویا سزائے موت کا قیدی پھانسی کے سامنے کھڑا ہے۔

کلاک نے بارہ بجائے، پہلی ضرب پر انگلیاں متحرک ہوئیں اور آخری ضرب پر کاغذ کا وہ ٹکڑا ایک ننھی سی گولی بنا دیا گیا۔ انگلیوں نے یہ کام بڑی بے رحمی سے کیا اور جس شخص کی یہ انگلیاں تھیں اور بھی زیادہ بے رحمی سے اس گولی کو نگل گیا۔ اس کے لبوں پر ایک تیزابی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اس نے خالی کیلنڈر کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا اور کہا،’’میں تمہیں کھا گیا ہوں۔۔۔ بغیر چبائے نگل گیا ہوں۔‘‘

اس کے بعد ایک ایسے قہقہے کا شور بلند ہوا جس میں ان توپوں کی گونج دب گئی جو نئے سال کے آغاز پر کہیں دور داغی جارہی تھیں۔جب تک ان توپوں کا شور جاری رہا، اس کے سوکھے ہوئے حلق سے قہقہے آتشیں لاوے کی طرح نکلتے رہے، وہ بے حد خوش تھا، بے حد خوش، یہی وجہ تھی کہ اس پر دیوانگی کا عالم طاری تھا۔ اس کی مسرت آخری درجہ پر پہنچی ہوئی تھی، وہ سارے کا سارا ہنس رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں رو رہی تھیں اور جب اس کی آنکھیں ہنستیں تو آپ اس کے سکڑے لبوں کو دیکھ کر یہی سمجھتے کہ اس کی روح کسی نہایت ہی سخت عذاب میں سے گزر رہی ہے۔

بار بار وہ نعرہ بلند کرتا، ’’میں تمہیں کھا گیا ہوں۔۔۔ بغیر چبائے نگل گیا ہوں۔۔۔ ایک ایک کرکے تین سو چھیاسٹھ دنوں کو، لیپ دن سمیت!‘‘

خالی کیلنڈر اس کے اس عجیب و غریب دعوے کی تصدیق کررہا تھا۔

آج سے ٹھیک چار برس پہلے جب وہ اپنے کاندھوں پر مصیبتوں کا پہاڑ اٹھا کر اپنی روٹی آپ کمانے کے لیے میدان میں نکلا تو کتنے آدمیوں نے اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔۔۔ کتنے لوگ اس کی ’’ہمت‘‘ پر زیرِ لب ہنستے تھے۔ مگر اس نے ان باتوں کی کوئی پروا نہ کی تھی اور اسے اب بھی کسی کی کیا پروا تھی، اس کو صرف اپنے آپ سے غرض تھی اور بس، دوسروں کی جنت پر وہ ہمیشہ اپنی دوزخ کو ترجیح دیتا رہا تھا اور اب بھی اسی چیز پرپابند تھا۔ وہ ان دنوں گدھوں کی سی مشقت کررہا تھا، کتوں سے بڑھ کر ذلیل زندگی بسر کررہا تھامگر یہ چیزیں اس کے راستے میں حائل نہ ہوتی تھیں۔

کئی بار اسے ہاتھ پھیلانا پڑا۔۔۔ اس نے ہاتھ پھیلایا، لیکن ایک شان کے ساتھ۔ وہ کہا کرتا تھا، ’’یہ سب بھکاری جو سڑکوں پر جھولیاں پھیلائے اور کشکول بڑھائے پھرتے رہتے ہیں، گولی مار کر اڑا دینے چاہئیں۔ بھِیک لے کر یہ ذلیل کتے شکر گزار نظر آتے ہیں۔۔۔ حالانکہ انھیں شکریہ گالیوں سے ادا کرنا چاہیے۔۔۔ جو بھیک مانگتے ہیں وہ اتنے لعنتی نہیں جتنے کہ یہ لوگ جو دیتے ہیں۔ دان پُن کے طور پر۔۔۔ جنت میں ایک ٹھنڈی کوٹھری بک کرانے والے سوداگر!

اس کو کئی مرتبہ روپے پیسے کی امداد حاصل کرنے کی خاطر شہر کے دھن وانوں کے پاس جانا پڑا۔۔۔ اس نے ان دولت مندوں سے امداد حاصل کی۔۔۔۔ ان کی کمزوریاں انھیں کے پاس بیچ کر۔۔۔ اور اس نے یہ سودا کبھی اناڑی دکاندار کی طرح نہیں کیا۔

آپ شہر کی صحت کے محافظ مقرر کیے گئے ہیں۔ لیکن درحقیقت آپ بیماریاں فراہم کرنے کے ٹھیکےدار ہیں۔ حکومت کی کتابوں میں آپ کے نام کے سامنے ہیلتھ آفیسر لکھا جاتا ہے، مگر میری کتاب میں آپ کا نام امراض فروشوں کی فہرست میں درج ہے۔۔۔ پرسوں مارکیٹ میں آپ نے سنگتروں کے دو سو ٹوکرے پاس کرکے بھجوائے جو طبی اصول کے مطابق صحت عامہ کے لیے سخت مضر تھے۔ دس روز پہلے آپ نے قریباً دو ہزار کیلوں پر اپنی آنکھیں بند کرلیں جن میں سے ہر ایک ہیضہ کی پڑیا تھی۔۔۔ اور آج آپ نے اس بوسیدہ اور غلیظ عمارت کو بچا لیا جہاں بیماریاں پرورش پاتی ہیں اور۔۔۔ اسے عام طور پر آگے کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی تھی۔۔۔ اس لیے کہ اس کا سودا بہت کم گفتگو ہی سے طے ہو جاتا تھا۔

وہ ایک سستے اور بازاری قسم کے اخبار کا ایڈیٹر تھا۔ جس کی اشاعت دو سو سے زیادہ نہ تھی۔۔۔ دراصل وہ اشاعت کا قائل ہی نہ تھا۔۔۔ وہ کہا کرتا تھا، ’’جو لوگ اخبار پڑھتے ہیں بیوقوف ہیں اور جو لوگ اخبار پڑھ کر اس میں لکھی باتوں پر یقین کرتے ہیں، سب سے بڑے بیوقوف ہیں۔ جن لوگوں کی اپنی زندگی ہنگامے سے پر ہو، ان کو اِن چھپے ہوئے چیتھڑوں سے کیا مطلب؟‘‘

وہ اخبار اس لیے نہیں نکالتا تھا کہ اسے مضامین لکھنے کا شوق تھا۔ یا وہ اخبار کے ذریعے سے شہرت حاصل کرنا چاہتا تھا۔۔۔ نہیں، بالکل نہیں۔۔۔ ایک دو گھنٹے کی مصروفیت کے سوا جو اس کے اخبار کی اشاعت کے لیے ضروری تھی وہ اپنا بقیہ وقت ان خوابوں کی تعبیر دیکھنے میں گزارا کرتا تھا جو ایک زمانہ سے اس کے ذہن میں موجود تھے۔ وہ اپنے لیے ایک ایسا مقام بنانا چاہتا تھا جہاں اسے کوئی نہ چھیڑ سکے۔۔۔ جہاں وہ اطمینان حاصل کرسکے۔۔۔ خواہ وہ دو سیکنڈ ہی کا کیوں نہ ہو۔

’’جنگ کے میدان میں فتح، برلبِ گورہی نصیب ہو۔ مگر ہو ضرور۔۔۔ اور اگر شکست ہو جائے، پٹنا پڑے تو بھی کیا ہرج ہے۔۔۔ شکست کھائیں گے لیکن فتح حاصل کرنےکی کوشش کرتے ہوئے۔۔۔ موت ان کی ہے جو موت سے ڈرکر جان دیں، اور جو زندہ رہنے کی کوشش میں موت سے لپٹ جائیں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔۔۔ کم از کم اپنے لیے!‘‘

دنیا اس کے خلاف تھی۔ جو شخص بھی اس سے ملتا تھا اس سے نفرت کرتا تھا۔ وہ خوش تھا۔ نفرت میں محبت سے زیادہ تیزی ہوتی ہے۔۔۔ اگر سب لوگ مجھ سے محبت کرنا شروع کردیں تو میں اس پہیے کے مانند ہو جاؤں جس میں اندر باہر، اوپر نیچے سب جگہ تیل دیا گیا ہو۔۔۔ میں کبھی اس گاڑی کو آگے نہ دھکیل سکوں گا جسے لوگ زندگی کہتے ہیں۔

قریب قریب سب اس کے خلاف تھےاور وہ اپنے ان مخالفین کی طرف یوں دیکھا کرتا تھا گویا وہ موٹر کے انجن میں لگے ہوئے پرزوں کو دیکھ رہا ہے،’’یہ کبھی ٹھنڈے نہیں ہونے چاہئیں۔۔۔‘‘ اور اس نے اب تک ان کو ٹھنڈا نہ ہونے دیا تھا۔ وہ اس الاؤ کو جلائے رکھتا تھا جس پر وہ ہاتھ تاپ کر اپنا کام کیا کرتا تھا۔ جس روز وہ اپنے مخالفین میں کسی نئے آدمی کا اضافہ کرتا تو اپنے دل سے کہا کرتا تھا، ’’آج میں نے الاؤ میں ایک اور سوکھی لکڑی جھونک دی ہے جو دیر تک جلتی رہے گی۔‘‘

اس کے ایک مخالف نے جلسے میں اس کے خلاف بہت زہر اگلا۔۔۔ اسے بہت برا بھلا کہا۔ حتیٰ کہ اسے ننگی گالیاں بھی دیں۔ اس کے مخالف کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ سن کر اسے نیند نہ آئے گی مگر اس کے برعکس وہ تو اس روز معمول کے خلاف بہت آرام سے سویا اور اسے خود ساری رات آنکھوں میں کاٹنا پڑی۔ شب بھر اس کا ضمیر اسے ستاتا رہا۔ حتیٰ کہ صبح اٹھ کر وہ اس کے پاس آیا اور بہت بڑے ندامت بھرے لہجہ میں اس سے معذرت طلب کی۔

’’مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے آپ جیسے بلند اخلاق انسان کو برا بھلا کہا۔گالیاں دیں۔۔۔ دراصل۔۔۔ دراصل میں نے یہ سب کچھ بہت جلد بازی میں کیا۔ سوچے سمجھے بغیر۔۔۔۔ مجھے اکسایا گیا تھا۔۔۔ میں اپنے کیے پر نادم ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرما دیں گے۔ مجھ سے سخت غلطی ہوئی! س‘‘

بلند اخلاق۔۔۔! اسے ا س لفظ اخلاق سے بہت چڑ تھی۔۔۔ اخلاق رُخِ انسانیت کا غازہ۔۔۔ اخلاق۔۔۔ اخلاق، اخلاق۔۔۔ یعنی چہ۔۔؟ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو کی بے معنی گردان۔۔۔ انسان کی آزادانہ سرگرمیوں پر بٹھایا ہوا سینسر!

اس کو معلوم تھا کہ اس کے کمزور دل مخالف نے جھوٹ بولا۔ مگر نہ معلوم اس کے دل میں غصہ کیوں نہ پیدا ہوا۔۔۔ بخلاف اس کے اسے ایسا محسوس ہوا کہ جو شخص اس کے سامنے بیٹھا معافی مانگ رہا ہے اس کی کوئی نہایت ہی عزیز شے فنا ہوگئی ہے۔ وہ غایت درجہ بے رحم تصورکیا جاتا تھا اور اصل میں وہ تھا بھی بے رحم، نرم و نازک جذبات سے اس کا سینہ بالکل پاک تھا۔ مگر اس پتھر پر سے کوئی چیز رینگتی ہوئی نظر آئی۔ اسے اس شخص پر رحم آنے لگا۔

’’آج تم روحانی طور پر مر گئے ہو۔۔۔ اور مجھے تمہاری اِس موت پر افسوس ہے!‘‘

یہ سن کر اس کے مخالف کو پھر گالیاں دینا پڑیں مگر اس کے کانوں تک کوئی آواز نہ پہنچ سکی۔ مدت ہوئی وہ اس کو کسی دو دراز قبرستان میں دفن کر چکا تھا۔

چار برس سے وہ اسی طرح جی رہا تھا، زبردستی، دنیا کی مرضی کے خلاف۔ بہت سی قوتیں اس کو پسپا کر دینے پرتلی رہتی تھیں۔ مگر وہ اپنے وجود کا ایک ذرہ بھی جنگ کے بغیر ان کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔۔ جنگ، جنگ، جنگ۔۔۔ ہر مخالف قوت کے خلاف جنگ۔ رحم و ترحم سے ناآشنائی، عشق و محبت سے پرہیز۔ امید، خوف اور استقبال سے بیگانگی۔۔۔ اور پھر جو ہو سو ہو!

چار برس سے وہ زمانے کی تیز و تند ہوا میں ایک تناور اور مضبوط درخت کی طرح کھڑا تھا۔ موسموں کے تغیروتبدل نے ممکن ہے اس کے جسم پر اثر کیا ہو مگر اس کی روح پر ابھی تک کوئی چیز اثر انداز نہ ہو سکی تھی۔ وہ ابھی تک ویسی ہی تھی۔۔۔ جیسی کہ آج سے چار برس پہلے تھی، فولاد کی طرح سخت، یہ سختی قدرت کی طرف سے عطا نہیں کی گئی تھی بلکہ خود اس نے پیدا کی تھی۔

وہ کہتا تھا، ’’نرم و نازک روح کو اپنے سینے میں دبا کر تم زمانے کی پتھریلی زمین پر نہیں چل سکو گے۔ جو پھول کی پتی سے ہیرے کا جِگر کاٹنا چاہے اسے پاگل خانے میں بند کردینا چاہیے۔۔۔‘‘ شاعرانہ خیالات کو اس نے انپے دماغ میں کبھی داخل نہ ہونے دیا تھا اور اگر کبھی کبھار غیر ارادی طور پر وہ اس کے دماغ میں پیداہو جاتے تھے تو وہ ان ’’حرامی بچوں‘‘ کا فوراً گلا گھونٹ دیا کرتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا، ’’میں ان بچوں کا باپ نہیں بننا چاہتا جو میرے کاندھوں کا بوجھ بن جائیں۔‘‘

اس نے اپنے سازِ حیات سے ساری طربیں اتار دیں تھیں۔ اس نے اس میں سے وہ تمام تار نوچ کر باہر نکال دیے تھے جن میں سے نرم و نازک سُر نکلتے ہیں۔

’’زندگی کا صرف ایک راگ ہے اور وہ رجزہے۔ جو آگے بڑھنے، حملہ کرنے، مرنے اور مارنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اس کے سوا باقی تمام راگنیاں فضول ہیں جو اعضا پر تھکارٹ طاری کرتی ہیں۔‘‘

اس کا دل شباب کے باوجود عشق و محبت سے خالی تھا۔ اس کی نظروں کے سامنے سے ہزار ہا خوبصورت لڑکیاں اور عورتیں گزر چکی تھیں، مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کے دل پر اثر نہ کیا تھا۔۔۔ وہ کہا کرتا تھا،’’اس پتھر میں عشق کی جونک نہیں لگ سکتی!‘‘

وہ اکیلاتھا، بالکل اکیلا۔۔۔ کھجور کے اس درخت کے مانند جو کسی تپتے ہوئے ریگستان میں تنہا کھڑا ہو۔۔۔ مگروہ اس تنہائی سے کبھی نہ گھبرایا تھا۔ دراصل وہ کبھی تنہا رہتا ہی نہ تھا۔

’’جب میں کام میں مشغول ہوتا ہوں تو وہی میرا ساتھی ہوتا ہے۔ اور جب میں اس سے فارغ ہو جاتا ہوں تو میرے دوسرے خیالات و افکار میرے گردوپیش جمع ہو جاتے ہیں۔۔۔ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کے جمگٹھے میں رہتا ہوں۔‘‘

وہ اپنے دن یوں بسر کرتا تھا جیسے آم کھا رہا ہے۔ شام کو جب وہ بستر پر دراز ہوتا تھا تو ایسا محسوس کیا کرتا تھا کہ اس نے دن کو، چوسی ہوئی گٹھلی کے مانند پھینک دیا ہے۔ اگر آپ اس کے کمرے کی ایک دیوار ہوتے تو کئی بار آپ کے ساتھ یہ الفاظ ٹکراتے جو کبھی کبھی سوتے وقت اس کی زبان سے نکلا کرتے تھے، ’’آج کا دن کتنا کھٹا تھا۔۔۔ اس برس کے ٹوکرے میں اگر بقایا دن بھی اسی قسم کے ہوئے تو مزا آجائے گا!‘‘

اور راتیں۔۔۔ خواہ تاریک ہوں یا منور۔ اس کی نظر میں داشتائیں تھیں۔ جن کو وہ روز طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی بھول جاتا تھا۔

چار برس سے وہ اسی طرح زندگی بسر کررہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک اونچے چبوترے پربیٹھا ہے۔ ہاتھ میں ہتھوڑا لیے۔ زمانہ کا آہنی فیتہ اس کے سامنے سے گزر رہا ہے اور وہ اس فیتے پر ہتھوڑے کی ضربوں سے اپنا ٹھپہ لگائے جارہا ہے۔ ایک دن جب گزرنے لگتا ہے تو وہ فیتے کو تھوڑی دیر کے لیے تھام لیتا ہے۔ اور پھر اسے چھوڑ کر کہتا ہے،’’اب جاؤ، میں تمہیں اچھی طرح استعمال کرچکا ہوں۔‘‘

بعض لوگوں کو افسوس ہوا کرتا ہے کہ ہم نے فلاں کام فلاں وقت پر کیوں نہیں کیا۔ اور یہ پچھتاوا وہ دیر تک محسوس کیا کرتے ہیں۔ مگر اسے آج تک اس قسم کا افسوس یا رنج نہیں ہوا۔۔۔ جو وقت سوچنے میں ضائع ہوتا ہے وہ اس سے بغیر سوچے سمجھے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیا کرتا تھا۔۔۔ خواہ انجام کار اسے نقصان ہی کیوں نہ پہنچے۔ اگر سوچ سمجھ کرچلنے ہی میں فائدہ ہوتا تو ان پیغمبروں اور نیکوکاروں کی زندگی تکلیفوں اور ناکامیوں سے بھری ہوئی ہرگز نہ ہوتی، جو ہر کام بڑے غور و فکر سے کیا کرتے تھے۔ اگر سوچ بچار کے بعد بھی نقصان ہویا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے تو کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ غور و فکر میں پڑنے کے بغیر ہی نتائج کا سامنا کر لیا جائے۔

اسے ان چار برسوں میں ہزارہا ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ صرف منہ ہی نہیں بلکہ ان کو سر سے پیر تک دیکھنا پڑا تھا مگر وہ اپنے اصول پر اسی طرح قائم تھا جس طرح تند لہروں میں ٹھوس چٹان کھڑی رہتی ہے۔

آج رات بارہ بجے کے بعد نیا سال اس کے سامنے آرہا تھا۔ اور پرانے سال کو وہ ہضم کرگیا تھا۔ بغیر ڈکار لیے۔

نئے سال کی آمد پر وہ خوش تھا جس طرح اکھاڑے میں کوئی نامور پہلوان اپنے نئے مدِ مقابل کی طرف خم ٹھونک کر بڑھتا ہے۔ اسی طرح وہ نئے سال کے مقابلے میں اپنے ہتھیاروں سے لیس ہو کر کھڑا ہوگیا تھا۔ اب وہ بلند آواز میں کہہ رہا تھا،’’میں تم جیسے پہلوانوں کو پچھاڑ چکا ہوں۔ اب تمہیں بھی چاروں شانے چت گرادوں گا۔‘‘

جی بھر کر خوشی منانے کے بعد وہ نئے کیلنڈر کی طرف بڑھا جو میلی دیوار پر اوپر کی طرف سمٹ رہا تھا۔ تاریخ نما سے اس نے اوپر کا کاغذ ایک جھٹکے سے علاحدہ کردیا اور کہا، ’’ذرا نقاب ہٹاؤ تو۔۔۔ دیکھو ں تمہاری شکل کیسی ہے۔ میں ہوں تمہارا آقا۔۔۔ تمہارا مالک۔۔۔ تمہارا سب کچھ!‘‘ یکم جنوری کی تاریخ کا پتا عریاں ہوگیا۔ ایک قہقہہ بلند ہوا اور اس نے کہا:

’’کل رات تم فنا کردیے جاؤ گے!‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.