نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
نئی اس بزم سے میں زندگانی لے کے آیا ہوں
کچھ اپنی ناتوانی کچھ ترا پاس نزاکت تھا
نگاہوں میں محبت کی کہانی لے کے آیا ہوں
ترے جلوے کے نظارے کو خالی ہاتھ کیا آتا
لٹانے کو بہار نوجوانی لے کے آیا ہوں
لبوں پر مہر خاموشی ہے آنکھیں ڈبڈبائی ہیں
اثر انداز اپنی بے زبانی لے کے آیا ہوں
خدا معلوم قاصد کیا سنائے دل دھڑکتا ہے
یہ کہتا ہے کہ پیغام زبانی لے کے آیا ہوں
مژہ پر گرم گرم آنسو لبوں پر سرد سرد آہیں
فسانہ درد کا غم کی کہانی لے کے آیا ہوں
سرشک خوں دل پر داغ افسردہ تمنائیں
ازل سے یہ متاع زندگانی لے کے آیا ہوں
مقام خضر تھا یا میکدہ تھا کیا کہوں کیا تھا
جہاں سے میں حیات جاودانی لے کے آیا ہوں
جلیلؔ ابر سیہ کیا جھومتا ہے سبزہ زاروں پر
یہ کہتا ہے کہ آب زندگانی لے کے آیا ہوں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |