نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا

نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا
by ریاض خیرآبادی

نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا
گندھا ہوا ہے مرا دل کسی کے ہار میں کیا

اڑانے پھول حسیں آئے ہیں بہار میں کیا
لگی ہے آگ سی یہ آج لالہ زار میں کیا

کسی سے کہنے یہ آئے ہیں وہ سحر ہوتے
تمام رات کٹی میرے انتظار میں کیا

تمہارے خال کا بوسہ نہیں ہے گنتی میں
ذرا سی چیز ہے آئے گی یہ شمار میں کیا

اتار لی سر بازار جس نے رخ سے نقاب
حجاب آئے اسے سو میں کیا ہزار میں کیا

یہ سرمہ چشم عدو کے لئے اٹھا رکھیں
وہ خاک ڈالتے ہیں چشم اعتبار میں کیا

بنائیں گے دل پر داغ جمع کر کے انہیں
چمکتے دیکھے ہیں ذرے مرے غبار میں کیا

یہ میرے دوش سے ہوتے نہیں جدا دم نزع
گڑیں گے میرے فرشتے مرے مزار میں کیا

ہے انتظار کہ مے نوش خم لئے پہنچیں
گھری ہیں کل سے گھٹائیں یہ سبزہ زار میں کیا

جو دیکھے سانپ کے کاٹے کی لہر اسے آئے
بھرا ہے زہر اب ایسا بھی زلف یار میں کیا

شراب سے بھی سوا خوش گوار ہے ہم کو
بتائیں کیا کہ مزا پڑ گیا ادھار میں کیا

کنار شوق میں آ کر حسیں نکل نہ سکے
اثر خدا نے دیا ہے ہمارے پیار میں کیا

ریاضؔ توبہ کرو دن خزاں کے آئے ہیں
تم آئے پینے کو جاتی ہوئی بہار میں کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse