نیم جاں ہوں زندگی دود چراغ کشتہ ہے
نیم جاں ہوں زندگی دود چراغ کشتہ ہے
میری ہستی صورت بود چراغ کشتہ ہے
گو ہوں مفلس پر ہوں اپنی تیرہ بختی سے نمی
میرے گھر میں دولت سود چراغ کشتہ ہے
ہو نہیں سکتا سیہ کاری سے میں روشن ضمیر
دل مرا اک ظرف معصود چراغ کشتہ ہے
دیکھ کر پروانوں کے پر صبح کو ثابت ہوا
یہ بہار گلشن جود چراغ کشتہ ہے
اے شگفتہؔ مجھ کو پیری میں یہ مصرع یاد ہے
بود اپنی وہم نابود چراغ کشتہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |