نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
خشت خم خانہ ہے یاں اپنے تو سر کا تکیہ
لخت دل آ کے مسافر سے ٹھہرتے ہیں یہاں
چشم ہے ہم سے گداؤں کی گزر کا تکیہ
جس طرف آنکھ اٹھا دیکھیے ہو جائے اثر
ہم تو رکھتے ہیں فقط اپنی نظر کا تکیہ
چین ہرگز نہیں مخمل کے اسے تکیے پر
اس پری کے لیے ہو حور کے پر کا تکیہ
ہاتھ اپنے کے سوا اور تو کیا ہو ہیہات
والہ و در بہ در و خاک بسر کا تکیہ
سر تو چاہے ہے مرا ہووے میسر تیرے
ہاتھ کا بازو کا زانو کا کمر کا تکیہ
یہ تو حاصل ہے کہاں بھیج دے لیکن مجھ کو
جس میں بالوں کی ہو بو تیرے ہو سر کا تکیہ
تیکھے پن کے ترے قربان اکڑ کے صدقے
کیا ہی بیٹھا ہے لگا کر کے سپر کا تکیہ
گرچہ ہم سخت گنہ گار ہیں لیکن واللہ
دل میں جو ڈر ہے ہمیں ہے اسی ڈر کا تکیہ
گریہ و آہ و فغاں نالہ و یا رب فریاد
سب کو ہے ہر شب و روز اپنے اثر کا تکیہ
رند و آزاد ہوئے چھوڑ علاقہ سب کا
ڈھونڈھتے کب ہیں پدر اور پسر کا تکیہ
گر بھروسا ہے ہمیں اب تو بھروسا تیرا
اور تکیہ ہے اگر تیرے ہی در کا تکیہ
شوق سے سوئیے سر رکھ کے مرے زانو پر
اس کو مت سمجھئے کچھ خوف و خطر کا تکیہ
جب تلک آپ نہ جاگیں گے رہے گا یوں ہی
سرکے گا تب ہی کہ جب کہیے گا سرکا تکیہ
لطف ایزدی ہی سے امید ہے انشا اللہ
کچھ نہیں رکھتے ہیں ہم فضل و ہنر کا تکیہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |