نیکی کرنا جرم ہے

نیکی کرنا جرم ہے
by مرزا عظیم بیگ چغتائی
319595نیکی کرنا جرم ہےمرزا عظیم بیگ چغتائی

پہلے میں کہتا تھا کہ نیکی کرنا کوئی جرم نہیں لیکن اب کہتا ہوں کہ نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابل دست اندازی پولیس۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم احمق ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم! لہٰذا اب میں اپنا قصہ سنا کر آپ کی عقل کا بھی امتحان لیتا ہوں۔

(۱)

ایک روز کا ذکر ہے کہ میں اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا۔ یہ جب کا ذکر ہے کہ میری عمر بارہ یا تیرہ سال کی ہوگی۔ ایک کنوئیں پر سے گزر ہوا۔ دو تین عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ آپس میں ہنس بول رہی تھیں۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ان میں سے ایک عورت پر نظر پڑی اور وہ گڑ کر رہ گئی۔ ایسی کہa رفتار آہستہ پڑ گئی۔ دیکھ تو رہا ہوں کنوئیں کی طرف اور چل آگے رہا ہوں۔ ایک دم سے رک گیا۔ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ عمر کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے کبھی کسی عورت میں مجھے دلچسپی نظر نہ آئی تھی اور میں حیرت زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا۔ قد میں کتنی دلکشی تھی اور ہر جنبش سے ایک سرکشی عیاں تھی۔ سڈول بازو، پھنسی ہوئی نیم آستین سے بغاوت کر رہا تھا۔ اعضاء کی ہر جنبش میں رعنائی کی جلوہ گری اور ایک دلکش لچک تھی۔ رنگ اور روپ میں جوانی چمک رہی تھی۔

میں قریب آیا پانی پینے کے، لیے اور چپ کھڑا دیکھنے لگا۔ اب صرف ایک عورت اور تھی اور میں اور آگے بڑھا۔ میں نے پانی مانگا۔ دوسری عورت اپنا ڈول اٹھا چکی تھی، رسی کا لچھا بنا رہی تھی لہٰذا وہ کچھ نہ بولی اور اپنا گھڑا بھر کر چلتی ہوئی۔ اب میں کھڑا قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا ٹین کا ڈول بھرا۔ مجھ سے میری ذات پوچھی۔ میں غافل سا اس کے چہرے میں ڈوبا ہوا دلربا لرزشوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے بتایا اور کہا، ’’کائستھ ہوں۔‘‘ میں نے چلو سے پانی پینا شروع کیا مگر نظر اس کے چہرے پر جو کہ قریب تھا۔ اس کے رخسار کے باریک روئیں روشنی میں سنہری رنگ کے ذرّوں کی طرح لرز رہے تھے۔ میں نے انکار نہیں کیا اور کل ڈول پانی کا خرچ ہو گیا۔ اور میں بدستور چلو بنائے اسے گھور رہا تھا حالانکہ چلو اور ڈول خالی! وہ برابر مجھے دیکھ رہی تھی اور پیاس بھر پانی پی کر مجھے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ خواہ ہاتھ اٹھا کر خواہ سر سے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں کل ڈول پی گیا۔ اس نے میری حماقت کو ناپسند کر کے سر کو صرف جنبش دی۔

میں کچھ بھی نہ بولا اور وہیں کا وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ مجھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔ لہٰذا اس نے مجھ سے قدرے ترش روئی سے کہا، ’’ہوں! کیا دیکھتا ہے؟‘‘ میں بھلا کیا جواب دیتا۔ کیا کہہ دیتا کہ تیرے چہرے کو دیکھتا ہوں اور چہرے میں جوانی اور رعنائی کی جلوہ آرائی دیکھتا ہوں۔ میں ہٹ آیا تھا۔ بستہ بغل میں لیے کھڑا دیکھتا رہا تھا۔ وہ گھڑے بھر چکی تھی اور ڈول سنبھال کر رسی کا لچھا بنارہی تھی اور میں اس کی کلائی کی جنبش کو دیکھ رہا تھا۔ رسی کے ہر چکر پر ایک سی حرکت تھی۔ کس قدر دلچسپ کہ اس کلائی کی لچک سے بدن کو ہلکی سی جنبش ہوتی تھی۔ ایسی کہ معلوم ہو کہ دلکشی اور رعنائی کا چھلکتا ہوا جام ہے۔ جب وہ چلی تو مجھے گویا کھینچتی ہوئی۔ میں اس کے ساتھ پھر واپس اسکول کی طرف چلنے لگا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی کے خم پر نظریں جمائےآہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلا۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں اسے اور میں خاموش تھا۔

’’تو کہاں جا رہا ہے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا دیکھتا ہے؟‘‘ میں نے سادگی سے کہہ دیا، ’’تمہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ وہ اپنے خوبصورت لبوں کو قدرے حیرت سے جنبش دے کر بولی، ’’مجھے۔۔۔! ہشت۔۔۔! بھاگ!‘‘

میں خاموش ہوگیا اور نظریں نیچی کر لیں اور قدرے پیچھے رہ گیا۔ مگر نہیں۔ میں تو ساتھ ہی چلوں گا۔ اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ وہ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی اور میں اس پر نظریں جمائے۔ وہ گھر میں اپنے داخل ہوئی تو میں فاصلہ پر رک گیا۔ وہ غائب ہوگئی اور میں چلنے کو ہوا کہ وہ دروازے پر آئی اور اس نے پھر مجھے کھڑے دیکھا۔ دیکھ کر وہ واپس چلی گئی اور میں تھوڑی دیر انتظار کر کے واپس چلا آیا۔ گھنٹوں اس کے دلربا چہرے کا نقش سامنے رہا۔ گھنٹوں اس کے بدن کی جنبش سینما کی فلم کی طرح پیش نظر رہی۔ اس کی عمر قریب بیس بائیس سال کی تھی۔

(۲)

اس دن سے میرا دستور ہوگیا کہ میں کنوئیں پر پانی ضرور پیتا۔ اسکول کا آخری گھنٹہ بڑی بے صبری سے کٹتا۔ کنوئیں پر وہ ضرور ملتی۔ اگر نہ ملتی تو میں کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ اور بہت جلد میرے دل میں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید میرے انتظار میں بیٹھی ہو۔ کبھی کبھار دو چار باتیں ہوئیں۔ یہ ایک اچھے گھرانے کی بیوہ برہمن تھی جو بہت چھوٹی عمر میں بیوہ ہوگئی۔ ایسی کہ کبھی شوہر کے گھر بھی جانا نہ ہوا۔ میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا اور نہ کبھی زیادہ بات چیت کی۔ مگر چپکے چپکے دل میں اس کا نقش برابر گہرا ہوتا چلا گیا۔ میرا معمول تھا کہ پانی پی کر کھڑا رہتا اور اس پیکر جمال کو دیکھتا رہتا۔ وہ جانتی تھی کہ میں اس کا مستقل طور پر ’’دیکھنے والا‘‘ ہوں۔ یہ بھی غالباً جانتی ہی ہوگی کہ دیکھنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

دس مہینے اسی طرح گزرے ہوں گے کہ رام جی کے مندر کے میلے پر گیا۔ عورتوں کا بے حد ہجوم تھا۔ شام کے وقت مجمع سے علیحدہ ہو کر میں ایک طرف ہو گیا۔ سامنے دور تک دھندلکے کا سماں تھا اور سورج ڈوب چکا تھا۔ تاریکی بڑھ رہی تھی۔ دراصل میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا تھا اور اس جگہ سے د یکھ رہا تھا کہ سارا میلہ نظر کے سامنے تھا، لیکن کوئی نظر نہ پڑا اور اب کوئی امید نہ تھی کہ ساتھی مل جائیں، لہٰذا میں اٹھا اور چلنے کو ہوا کہ بائیں طرف سے ایک آہٹ ہوئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ محبوب سامنے تھا۔ دیکھتے ہی میرا عجیب حال ہوگیا۔ وہ خود رک گئی۔ میں کھڑا ہو گیا۔ دھندلکا تھا لہٰذا ذرا قریب بڑھا۔ وہ بھی قدرے قریب آئی۔ اس نے سر جھکا کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر عجیب تمسخر آمیز انداز سے مسکرا کر دیکھا اور کہا، ’’کیوں جی تم مجھے روز کیوں دیکھتے ہو؟‘‘

میں نے شرم سے نظریں نیچی کر لیں اور اس نے اور بھی مسکرا کر پھر وہی سوال کیا۔ میں نےنظر اٹھا کر دیکھا اور میلے کے شور و غل اور ڈوبتی ہوئی دھندلی سی روشنی میں اس کی چمکیلی آنکھیں اندھیرے میں ایک عجیب رنگینی کے ساتھ تیرتی معلوم ہوئیں۔ میں نے زور کا ایک سانس لے کر کہا، ’’بائی جی میں تم کو روز دیکھتا ہوں اور جب نہیں دیکھتا تو پریشان رہتا ہوں۔‘‘ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں چمک بڑھ گئی۔ وہ مسکرا کر بولی، ’’کیوں؟‘‘ میں نے کہا، ’’تم سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ تم سے بات چیت کرنے کو، تم سے جی چاہتا ہے کہ روز ملوں۔۔۔‘‘

اس نے خوش ہو کر کہا، ’’پھر تم کیوں نہیں ملتے، تم نے میرا گھر دیکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں دیکھا ہے۔ کیا میں وہاں ملنے آ سکتا ہوں؟‘‘ اس نے کہا، ’’تم ضرور آنا۔‘‘ اس کے بعد ہم دونوں دور تک ساتھ ساتھ باتیں کرتے چلے گئے اور پھر وہ اپنی ساتھ والیوں کے پاس چلی گئی۔

دوسرے روز سے میں زیادہ خوش تھا۔ میرا دل کہیں سے کہیں پہنچا۔ یہ معلوم ہوا کہ دل میں امنگ ہے۔ بڑی خوشی سے ہم دونوں ملتے۔ میں اس کے گھر جاتا اور گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ پڑھنے لکھنے سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔ بائی جی کے مکان پر ایک ماں تھی اور بوڑھا ماموں اور ایک مجھ سے بھی کم عمر بھائی تھا۔

(۳)

دو مہینے کے اندر اندر ہم دونوں میں گہری محبت ہوگئی مگر ذات پات کے بندھنوں کے سبب زبان بند تھی۔ ایک دن جبکہ زچ آچکا تھا، میں نے دل کا مطلب کھول دیا۔ وہ جانتی ہی تھی۔ یہ ناممکن تھا لیکن میں نے ایک دن کہہ دیا کہ ’’بائی بغیر تیرے میری زندگی مشکل ہے۔‘‘ وہ جانتی تھی۔ مگر اول تو بیوہ اور پھر وہ برہمن اور میں کائستھ۔ مگر نہیں۔ عشق و محبت کے قوانین اور ہیں۔ میں نے تجویز کی کہ کیوں نہ ہم دونوں لاہور چلے چلیں اور وہاں سماج میں داخل ہو کر قاعدے اور قانون کی رو سے شادی کر لیں۔ یہ ممکن ہے اور جائز بھی ہے۔ مگر سوال یہ تھا کہ پھر اپنے شہر میں کیونکر آئیں گے۔ بھلا کیسے منہ دکھائیں گے۔ لیکن کچھ دن بعد ازخود یہ بھی سوال جاتا رہا۔ عشق و محبت کی ضروریات بھی کوئی چیز ہیں۔

بائی نے اپنے گھر سے اور میں نے اپنے گھر سے روپیہ زیور جو ہاتھ لگا چرا لیا اور اصطلاح عام میں ہم دونوں ’’بھاگ گئے۔‘‘ اور پنجاب پہنچ کر ہم نے شادی کر لی۔ یہ شادی کیسی تھی۔ بس نہ پوچھیے۔ عرصے تک یہی معلوم ہوا کہ شراب محبت کے نشے میں چور ہم دونوں ہوا میں جھول رہے ہیں! لیکن افسوس کہ روپیہ ہمارا تھڑ رہا تھا اور تلاشِ معاش کا خلجان ایک خوفناک بھوت بن کر سامنے آ رہا تھا۔ تلاش معاش کے لیے بہت سرگرداں ہونا پڑا، لیکن پھر ایک مہاجن کے لڑکے کو انگریزی پڑھانے پر مجھے نوکری مل گئی اور شریمتی جی کھانا پکانے کا کام کرنے لگیں۔ ہم دونوں بہت خوش تھے اور کبھی بھول کر بھی گھر کا رخ نہ کیا۔

لیکن بہت جلد دشواریوں کا سامنا ہوا۔ میری عمر ہی کیا تھی۔ نہ تجربہ تھا نہ عقل تھی اور اسی کشمکش میں تنگی ترشی سے دس سال گزر گئے۔ اب اس عرصے کی روئیداد بھی سن لیجیے۔ سال بھر کے اندر ہی شریمتی جی کا کچھ اور ہی رویہ ہوگیا۔ محبت بدستور تھی، مگر مجھے پہلے تو جھڑکنا شروع کیا اور پھر مارنا شروع کر دیا۔ ہاتھ کھلنے کی دیر تھی کہ بات بات پر میں پٹنے لگا اور بہت جلد میری حیثیت ایک غلام کی سی ہوگئی اور یہی دستور برابر جاری رہا۔

پھر ستم تو یہ تھا کہ اس دوران میں روزگار بھی ٹھیک لگ گیا تھا۔ تین بچے بھی ہوگئے تھے اور ظلم یہ کہ بچوں کے سامنے میں پٹتا تھا۔ بچوں نے پہلے تو ڈرنا لیکن بعد میں ہنسنا شروع کیا۔

ظاہر ہے کہ صورت حال کس طرح میرے لیے تکلیف دہ ہوگئی۔ آپ کہیں گے کہ میں پٹ کیسے گیا۔ عرض ہے کہ کوئی راضی خوشی نہیں مار کھاتا۔ کمزور جوتیاں کھاتا ہے۔ دو ایک دفعہ میں نے زور آزمائی کی اور شکست کھائی۔ شریمتی جی کی نہ صرف تندرستی بہت اچھی تھی بلکہ قد اور ہاتھ پیر مجھ سے سوائے کیا ڈیوڑھے تھے۔ تین سال بعد میرا گھر آنا جانا بھی ہو گیا تھا مگر میں حتی الوسع منہ چھپاتا تھا۔ برادری باہر آدمی کو کون منہ لگاتا ہے۔

(۴)

جس وقت کا میں ذکر کر رہا ہوں، حالات ناگفتہ بہ ہو چکے تھے۔ روز کی مارپیٹ سے تنگ آگیا تھا کہ ایک دن محض ذرا دیر سے گھر آنے پر میں اتنا پٹا کہ پڑوسن نے آ کر بچایا۔ ہڈی پسلی میری ایک کردی گئی اور اس روز سے مجھے شریمتی جی سے نفرت ہوگئی اور میں سوچ رہا تھا کہ کیا تدبیر کروں۔ لیکن ابھی سوچنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک دن صبح تڑکے مجھے لکڑی اور جوتیوں سے مارا اور بچے قہقہہ لگاتے رہے۔ انتہا ہو چکی تھی لہٰذا میں نے کچھ طے کرلیا۔ ایک خط اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ میرے بچوں کا خیال رکھنا اور میں اس دنیا سے رخصت ہوتا ہوں اور پھر یہ طے کیا کہ اس ظالم عورت کو قتل کر کے خود بھی اپنے آپ کو آج ہی ہلاک کر دوں گا۔ مگر واہ رے بھائی کہ جگہ سے جنبش تک نہ کی۔

شام کا جھٹپٹا وقت تھا اور ہماری گائے کے رہنے کا باڑہ پچھواڑے تھا۔ گائے دوہنے کو شریمتی جی اکیلی جاتی تھی اور یہی موقع تھا۔ قتل کرنا اور پھر وہ بھی بیوی کو ذرا مشکل کام ہے اور ممکن ہے کہ عین موقع پر میں رک جاتا، مگر شریمتی جی نے گائے دوہنے جانے سے کچھ ہی قبل مجھے ذرا سی بات پر مار کر اور بھی اندھا کردیا۔ دیوار کے پاس کانٹوں کی ایک جھاڑی تھی۔ اس کی آڑ میں چھپ گیا اور جونہی شریمتی جی قریب سے گزری ہیں میں نے بے خبری میں پیچھے سے پشت پر داہنی طرف بھرپور چاقو کا ہاتھ دیا۔ یہ ایک بڑا سا چاقو تھا جو میں نے آج ہی گھر میں دیکھا تھا۔ ان کے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ برتن ہاتھ سے گر گیا، لیکن انہوں نے مڑ کر میرا مقابلہ کیا۔ میں نے دو وار اور کیے، مگر یہ انہوں نے ہاتھوں پر روکے، لیکن میں نے ان پر اس زور سے حملہ کیا کہ گرا دیا وار گراتے ہی سینے پر چڑھ کر سچ مچ شریمتی جی کو ذبح کرنے لگا اور وہ برابر اپنے دونوں ہاتھوں سے گلا بچا رہی تھیں کہ ان کی آواز سن کر ایک پڑوسی برہمن آ نکلا اور اس نے میرے اوپر حملہ کر کے شریمتی جی کو چھڑایا۔

میں نے دیکھا کہ اب معاملہ بگڑا۔ لہٰذا میں نے مہاراج پر حملہ کیا، مگر مہاراج طاقت میں مجھ سے چوگنے تھے۔ میرے چاقو کے دو وار انہوں نے بہادری سے ہاتھوں پر لیے اور تیسرے وار پر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے ناامید ہوکر دوسرے ہاتھ میں چاقو لے کر اپنا خاتمہ کرنا چاہا اور جب تک مجھے مہاراج پکڑیں، میں اپنے گلے کو پوری طرح زخمی کر چکا تھا۔ اتنے میں اور دوچار آدمی آوازیں سن کر دوڑے آئے۔ شریمتی جی پڑی دم توڑ رہی تھیں اور میرا بھی ایک دم سے سر چکرایا اور میں نے اپنے کو گرتے ہوئے محسوس کیا۔

(۵)

اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی ہے تو میں نے اپنے کو ہسپتال میں پایا۔ پولیس والے سرہانے تھے اور بیان کے لیے مصر۔ میں نے بیان دینے سے قطعی انکار کر دیا۔ اسی ہسپتال کے زنانے وارڈ میں شریمتی جی موت اور زیست کے مراحل طے کر رہی تھیں۔ میں نے اپنے بیان بعد میں بھی نہ دیے، لیکن شریمتی جی نے تیسرے روز بالکل صحیح صحیح بیان دے دیے۔ میں تو مہینہ بھر کے اندر ہی اندر اچھا ہو کر پولیس کی حوالات میں پہنچا، لیکن شریمتی جی تین مہینے ہسپتال میں رہیں اور جب وہ اچھی ہو گئیں تو ہمارا مقدمہ عدالت میں آیا۔

پہلی ہی پیشی پر شریمتی جی سے میری ملاقات ہوئی۔ بس اتنی کہ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ میں نے نظریں نیچی کرلیں۔ وہ گواہ اور مستغیث تھیں اور میں ملزم۔ ہتھکڑی بیڑی پہنے عدالت کے باہر بیٹھا تھا۔ میں جب کبھی بھی سر اٹھا کر دیکھتا، شریمتی جی کو اپنی طرف دیکھتا پاتا۔ دن بھر ہم بیٹھے رہے اور مقدمے کی پیشی دوسرے ضروری مقدمات کے سبب نہ ہوسکی۔ شریمتی جی کی آنکھوں سے نفرت اور انتقام کی چنگاریاں سی اڑتی معلوم ہوتی تھیں۔ دوسرے دن بھی پیشی نہ ہوئی اور شریمتی جی مجھے اسی طرح دیکھتی رہیں۔ آج ان کے ساتھ بڑا لڑکا بھی تھا۔ ماں بیٹے مجھے دور ہی سے بیٹھے دیکھتے رہے۔ میں وقتاً فوقتاً سر اٹھا کر دیکھ لیتا تھا، ورنہ سر جھکائے اپنی قسمت کے نوشتے کا منتظر تھا۔

دو دن ہمارا مقدمہ ملتوی رہا اور تیسرے دن چالان پیش کر دیا گیا اور میرے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔ کارروائی عدالت وکیل سرکار کی مختصر تقریر سے شروع ہوئی۔ پہلے گواہ مقدمے کے ہیرو دیوی لال مہاراج پڑوسی تھے۔ انہوں نے بیان دیا کہ کس طرح انہوں نے مجھے شریمتی جی کو قتل کرتے دیکھا۔ آلہ حرب شناخت کرکے بتایا کہ ان کا ہے، جو شریمتی جی ان کی بہن سے مانگ لائی تھیں۔ اسی سے ضربات پہنچائی گئیں اور چھڑوانے لگے تو میں نے ان کو زخمی کیا اور پھر خودکشی کی کوشش کی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ جرح کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ میں نے جرح کرنے سے انکار کر دیا۔

دوسری گواہ خود شریمتی جی تھیں۔ عدالت میں وہ داخل ہوئیں تو انہوں نے میری طرف دیکھا۔ چہرے پر ضرورت سے زیادہ سنجیدگی تھی اور ضرورت سے زیادہ مغموم معلوم ہوتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چہرے سے ابھی ابھی آنسو پونچھے ہیں۔ وہ بالکل خاموش گواہی کے لیے بڑھیں اور ان کے بیان شروع ہوئے، ’’ملزم حاضر عدالت میرا میاں ہے۔ میری اس کی شادی ہوئی ہے۔ فلاں فلاں تاریخ کو میں زخمی ہوئی۔ حملہ آور میرا شوہر، حاضر عدالت نہیں تھا، بلکہ (دیوی لال کی طرف انگلی اٹھا کر) اس نےمجھے چاقو سے زخمی کیا۔۔۔‘‘

’’ہیں! ہیں!‘‘ گھبرا کر وکیل سرکار نے کہا، ’’کیا کہا تم نے؟‘‘

شریمتی جی نے سنجیدگی سے کہا، ’’میں نے یہ کہا کہ مجھے پنڈت دیوی لال نے قتل کرنے کی کوشش کی اور مجھے میرے شوہر ملزم حاضر عدالت نے بچانا چاہا تو دیوی لال نے اسے بھی زخمی کیا۔‘‘

سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پنڈت دیوی لال جی خواہ مخواہ حواس باختہ ہوگئے اور بطور احتجاج بوکھلا کر لگے بکنے، مگر خاموش کردیے گئے۔ پھر جرح شروع ہوئی۔ اِدھر اُدھر کے سوالات پوچھ کر آخر میں مجسٹریٹ نے پوچھا۔

مجسٹریٹ، ’’تم نے ہسپتال میں اپنے بیان میں جو یہ بات لکھائی کہ اپنے میاں کو مارتی تھیں، تو کیا یہ بھی غلط ہے؟‘‘

شریمتی، ’’بچوں کو مارنے کو لکھایا ہوگا۔ قطعی غلط ہے۔‘‘

مجسٹریٹ نے شریمتی جی کا بیان لے کر ایشری اور رام پال پڑوسیوں کے بیان لیے، دونوں نے اس کی تصدیق کی کہ جب ہم آئے تو ملزم اور اس کی بیوی بری طرح زخمی تھے اور چاقو دیوی لال کے ہاتھ میں تھا۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ پہلے ہی سے تھا یا انہوں نے ملزم کے ہاتھ سے چھینا تھا۔ مجسٹریٹ نے میرا بیان لیا۔ مجھے جھوٹ سے بھلا کیا تعلق۔ میں نے بھی شریمتی جی کے بیان کی تائید کر دی۔ اس کے بعد مجسٹریٹ نے پنڈت دیوی لال کی طرف خونی نظر ڈالی اور بیان مکرر کے لیے طلب کیا۔ پنڈت جی آنکھیں پھاڑے قسمیں کھاتے گواہ کے کٹہرے میں آئے اور مجسٹریٹ کے سوالات کا ان کو جواب دینا پڑا۔

’’آلۂ ضرب یعنی چاقو میرا ہے جو ملزم کی بیوی میری بہن سے عاریتاً مانگ کر لائی تھی۔ میری بیوی مر چکی ہے، دوسری بیوی کی تلاش ہے۔ بیوی ملنے میں دو ہزار روپیہ خرچ کی ضرورت ہے، لڑکی والوں کو دینا پڑتا ہے اسی وجہ سے بغیر بیوی بیٹھا ہوں۔ ملزم کی بیوی جس ذات کی ہے، اس میں میری شادی ہو سکتی ہے۔ میں نے ملزم کی بیوی سے کبھی مذاق نہیں کیا اور کبھی اس سے یہ نہیں کہا کہ میری ہو جا۔ میں ذات کا برہمن ہوں۔ ملزم نے بھرپور میرے سینے پر چاقو کے وار کیے مگر ہاتھوں میں سوا معمولی خراش کے اور زخم نہیں آیا اور وہ وار میں نے روک لیے۔ ملزم نے اپنے الٹے ہاتھ سے خود کو زخمی کیا تو میں اس کا ہاتھ نہیں پکڑ سکا حالانکہ وہ میرے قابو میں تھا اور میں اس کا سیدھا ہاتھ پکڑے تھا۔ سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ میں چاقو لیتے وقت بھی میں ملزم سے نہ چھین سکا۔ جو وار اس نے اپنے اوپر کیے وہی وار ملزم میرے اوپر کر سکتا تھا، جن میں سے ایک وار ضرور میرے سینے پر پڑ سکتا تھا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

اس کے بعد ہی مجسٹریٹ نے میرا بیان لیا۔ میں نے شریمتی جی کے بیان کی تصدیق کی۔ مجسٹریٹ نے وکیل سرکار سے کہا کہ وجہ ظاہر کرو کہ کیوں نہ مقدمہ عدم ثبوت میں خارج ہو۔ وکیل سرکار نے بحث میں کہا کہ ملزم کی بیوی ملزم سے مل گئی ہے اور یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ اپنے میاں سے وقوعہ کی تاریخ سے اب تک مل بھی نہیں سکی ہے۔ مجسٹریٹ نے بحث سماعت کر کے کہا کہ باہر ٹھہریں۔ آدھ گھنٹے بعد مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔

’’مقدمہ عدم ثبوت میں خارج اور ملزم رہا کیا جائے، پولیس کی تفتیشی کارروائی قابل رحم ہے۔ دیوی لال کا معاملہ مقدمہ ہذا میں تنقیح طلب نہیں لہٰذا اس کے بارے میں ہم کوئی ریمارک پاس نہیں کر سکتے۔ مگر اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ خود پولیس اور دیوی لال کی پوزیشن سخت مشکوک ہے اور پولیس کو واضح رہے کہ مقدمہ ہذا عدم وقوعہ میں خارج نہیں ہوا بلکہ عدم ثبوت میں خارج ہوتا ہے اور یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ جرم کس نے کیا۔ دیوی لال کا ہمیں یقین نہیں وہ جھوٹا گواہ ہے اور معاملات سطح پر نہیں آئے۔ امن عامہ اور انصاف کی خاطر پولیس اگر چاہے تو دیوی لال کے مقدمے میں تفتیش کر سکتی ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملزم کی مضروب بیوی کا دیدہ و دانستہ ہسپتال میں مجسٹریٹ کے روبرو بیان لینے کے عوض بلا کسی وجہ کے پولیس نے خود ہی بیان لینے پر اکتفا کیا اور دیوی لال دورانِ تفتیش پیش پیش رہا تو پولیس اور دیوی لال دونوں کی پوزیشن قابل رحم اور قابل تنقید ہو جاتی ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘

میں رہا ہوکر شریمتی جی کے بہت دیر بعد گھر پہنچا۔ شریمتی جی پر نظر پڑی، منہ پھلائے بیٹھی تھیں۔ مجھ سے کچھ نہ بولیں، مگر چشم زدن میں جھپٹ کر وہ میرے اوپر پل پڑیں اور قبل اس کے کہ کچھ کہیں، انہوں نے ایک اڑھائی درجن جوتے میری چاند پر گن دیے اور جوتا پھینک کر چارپائی پر بیٹھ کر اپنا منہ دوپٹے سے چھپا کر جو رونا شروع کیا ہے تو ہچکی بندھ گئی۔ میں نے ہاتھ جوڑے، پیر پکڑے، تب جا کر بڑی مشکل سے راضی ہوئیں۔

(۶)

پنڈت دیوی لال کا حال سنئے۔ پولیس نے ان کو وہیں عدالت میں دھر لیا اور ضمانت پر بھی نہ چھوڑا۔ اِدھر ہمارے گھر پر جو لعنت بھیجنے والوں کا ہجوم ہوا تو شریمتی جی نے دروازے بند کر لیے۔ نتیجہ یہ کہ آدھے محلہ کے آدمی پنڈت جی کو مجرم کہنے لگے اور ہم نے دروازہ کھول دیا۔

پولیس نے چالان پیش کر دیا۔ پنڈت جی کے دشمنوں اور مخالفوں نےجو خود ان کی ہی برادری کے تھے، اب پوری چشم دید شہادت پیش کردی۔ دو تین آدمیوں نے کہا ہم سے خود شریمتی جی نے شکایت کی تھی کہ دیوی لال مجھے چھیڑتا ہے اور قتل کرنے کو کہتا ہے اور دو تین آدمیوں نے کہہ دیا ہم نے خود اپنی آنکھ سے دیوی لال کو شریمتی جی پر حملہ کرتے دیکھا۔ نتیجہ یہ کہ پنڈت جی کو سات سال قید سخت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا ہوئی، جو باوجود اپیل ہائی کورٹ تک بحال رہی۔ در اصل پنڈت جی نے کام ہی ایسا کیا تھا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔

مگر مصیبت تو دیکھیے۔ خطا پنڈت جی کریں اور بھگتیں ہم۔ شریمتی جی نے جو خبر سنی کہ پنڈت دیوی لال جی کو سزا ہوگئی تو ان کے اوپر بجلی سی گری۔ سکتے میں پڑ گئیں۔ چہرے پر مردنی چھا گئی اور خاموش چہرے پر دو موٹے موٹے آنسو ڈھلک آئے۔ اور یہ تھی پنڈت دیوی لال کی نیکی اور احسان کی اصل قیمت۔ اس دن شریمتی جی نے مارے رنج و غم کے کھانا نہیں کھایا۔ یہاں تک خیر غنیمت تھا، لیکن میرے ایک ذرا سے سوال پر جو بگڑیں تو مجھے مارا اور دیوی لال کا حوالہ دے کر خوب مارا۔ اتنا کہ جتنا نہیں چاہیے تھا۔ قصہ مختصر ساری بھڑاس مجھ پر نکال لی۔ اب رہ گئے دیوی لال جی تو انہوں نے اپنی نیکی کی سزا پائی۔ وہ تھے بھی اس لائق۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے۔

نتیجہ، دیوی لال جی جیل میں ہیں۔ جرمانے میں گھر کا زیور اسباب نیلام ہو گیا۔ سنتے ہیں کہ جیل کاٹ کر آئیں گے تو برادری سے خارج کیے جائیں گے۔ ہمیں تو اس مقدمے کے اصل نتیجے سے بحث ہے اور وہ یہ کہ، ’’اب خوب پٹتے ہیں اور چوں نہیں کرتے۔‘‘ اور برملا کہتے ہیں کہ، ’’نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابل دست اندازی پولیس۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.