وارفتگیٔ عشق نہ جائے تو کیا کریں
وارفتگیٔ عشق نہ جائے تو کیا کریں
تیرا بھی اب خیال نہ آئے تو کیا کریں
خود شرم عشق دل کو مٹائے تو کیا کریں
ان تک نگاہ شوق نہ جائے تو کیا کریں
مے خواریاں گناہ سہی ساقیٔ ازل
جب ابر جھوم جھوم کے آئے تو کیا کریں
یہ دیر وہ حرم یہ کلیسا وہ مے کدہ
اپنی طرف ہر ایک بلائے تو کیا کریں
ممکن ہے ہر خیال کا دل سے نکالنا
تیرا خیال آ کے نہ جائے تو کیا کریں
مانا نگاہ شوق رہے احتیاط سے
ہر جلوہ خود نظر میں سمائے تو کیا کریں
باسطؔ ستم پہ شکر ستم چاہئے مگر
کوئی کرم سے ہم کو مٹائے تو کیا کریں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |