وار اور پھر وار کس کا آپ کی تلوار کا

وار اور پھر وار کس کا آپ کی تلوار کا
by فروغ حیدرآبادی

وار اور پھر وار کس کا آپ کی تلوار کا
اب رفو مشکل سے ہوگا زخم دامن دار کا

خون رونا بے گناہی پر تری تلوار کا
اور ہنس دینا ہمارے زخم دامن دار کا

کس قدر لپکا ہے چشم شوق کو دیدار کا
بن گیا تار نظر آخر تصور یار کا

سیج پر گزری مگر گزری شب وصل اس طرح
چٹکیاں لیتا رہا دھڑکا فراق یار کا

رشک دشمن ہی سے بھڑکی آتش عشق حبیب
پھول کی وقعت بڑھاتا ہے کھٹکنا خار کا

جاؤ اپنی راہ لو قاتل یوں ہی ہوتے ہیں کیا
آج تک تم کو نہ آیا باندھنا تلوار کا

دل ہمارا آپ ہی بڑھ کر نشانہ ہو گیا
تیر چلنے بھی نہ پایا تھا نگاہ یار کا

قتل گہہ میں کام کر جاتا ہے تیرا بانکپن
وار ہو جاتا ہے ہر انداز میں تلوار کا

بڑھ گیا تیری کھچاوٹ کا یہاں تک تو اثر
مجھ سے اب کھنچتا ہے سایہ بھی تری دیوار کا

درد الفت کو چھپایا راز الفت کی طرح
واہ کیا کہنا ہمارے زخم دامن دار کا

پاس تو آؤ تمہیں کیا کھائے جاتا ہے فروغؔ
جان عاشق وہ تو بھوکا ہے فقط دیدار کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse