واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا
واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا
نام ہے دیدار حسرت حسرت دیدار کا
سیر ہے جنت کی سیروں سے ترے عاشق کا دل
لے کے جنت کیا کرے بھوکا ترے دیدار کا
ذرۂ دل میں اتر آئے ہزاروں آفتاب
کیا کرشمہ ہے خیال جلوہ گاہ یار کا
بڑھ چلا تھا تیری غفلت سے بھی بار بیکسی
موت نے پوچھا مزاج آ کر ترے بیمار کا
جانتے ہیں اک جھلک میں جان و دل مٹ جائیں گے
لوگ منہ تکتے ہیں تیرے طالب دیدار کا
دھیان میں اس کے دو عالم سے کھنچا بیٹھا ہوں میں
یعنی اک نقشہ کھنچا ہے جذب حسن یار کا
جس کو کہتے ہیں مقدر عاشقان بد نصیب
ہے وہ اک بگڑا ہوا خاکہ مزاج یار کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |