وجد اہل کمال ہے کچھ اور

وجد اہل کمال ہے کچھ اور
by میر محمدی بیدار

وجد اہل کمال ہے کچھ اور
شیخ صاحب کا حال ہے کچھ اور

ہوش جاتا ہے اہل ہوش کا سن
تیرے مستوں کا حال ہے کچھ اور

فخر انساں نہیں ملک ہونا
جی میں اپنے خیال ہے کچھ اور

جس کو کہتے ہیں وصل وصل نہیں
معنیٔ اتصال ہے کچھ اور

غیر حرف نیاز سو بھی کبھو
کہہ سکوں ہوں مجال ہے کچھ اور

رخ خورشید پر کہاں وہ نور
میرے مہ کا جمال ہے کچھ اور

سرو! دعویٔ ہم سری مت کر
وہ قد نونہال ہے کچھ اور

کبک تو خوش خرام ہے لیکن
یار کی میرے چال ہے کچھ اور

دیکھ چل تو بھی حالت بیدارؔ
آج اس کا تو حال ہے کچھ اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse