وحشت زدہ دل تو جوں شرر ہے
وحشت زدہ دل تو جوں شرر ہے
اس کے تئیں آپ سے سفر ہے
تم جور و جفا کرو جو چاہو
ان باتوں پہ کب مجھے نظر ہے
تو آپ ہی خیر آپ شر ہے
کچھ اور نہ نفع نے ضرر ہے
ہم بے خبروں سے رہ خبردار
اتنی تو بھلا تجھے خبر ہے
گزری جاتی ہے ہر طرح سے
دنیا گزران سر بسر ہے
دل کے خطروں سے بے خطر ہوں
سر سے پاؤں تلک خطر ہے
تو نے ہی تو یوں نڈر کیا ہے
بس ایک مجھے ترا ہی ڈر ہے
یوں درد بہ جان و دل سمایا
ہر نالہ و آہ کارگر ہے
یا حضرت عندلیب بخشش
یہ تیرے ہی درد کا اثر ہے
دل تیری طرف ہے نت پر اس کو
معلوم نہیں کہ تو کدھر ہے
یوں آنکھ سے آنکھ میں ملا ہے
اتنا تو مرا دل و جگر ہے
بے درد تو کیونکہ رہ سکے گا
یہ حضرت دردؔ کا اثرؔ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |