وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
قمر بھی ہے مرے پہلو میں آفتاب بھی ہے
یہ حسن کی نہیں جادوگری تو پھر کیا ہے
کہ تیری آنکھ میں شوخی بھی ہے حجاب بھی ہے
کسی کو تاب کہاں ہے کہ تجھ کو دیکھ سکے
جو نور ہے ترے رخ پر وہی نقاب بھی ہے
ثبوت عشق کو یہ دو گواہ کافی ہیں
جگر میں داغ بھی ہے دل میں اضطراب بھی ہے
غرور حسن تجھے جس قدر ہو زیبا ہے
خدا کے فضل سے صورت بھی ہے شباب بھی ہے
ستم کی چال ستم کی ادا ستم کی نگاہ
ترے ستم کا ستم گر کوئی حساب بھی ہے
مرے لیے نہیں پینے کی کچھ کمی ساقی
کہ چشم مست بھی ہے ساغر شراب بھی ہے
جلیلؔ نے تمہیں چاہا تو کیا گناہ کیا
تمہیں بتاؤ تمہارا کوئی جواب بھی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |