وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں
وصل بننے کا کچھ بناؤ نہیں
واں لگا دل جہاں لگاؤ نہیں
پاؤں کیوں دابنے نہیں دیتے
گر کسی کا تمہیں دباؤ نہیں
زخم دل کا علاج کیا کیجے
قابل مرہم اپنا گھاؤ نہیں
ایسے دریا میں بہہ چلے ہیں کہ آہ!
جس میں ٹاپو نہیں ہے ناؤ نہیں
ہے بہت جلوہ گاہ یار بلند
دیکھیں کیا یاں سے کچھ دکھاؤ نہیں
بل بے تیری سجاوٹیں اللہ
کچھ قیامت ہے یہ بناؤ نہیں
دسترس واں ذرا نہیں اور ہائے
دل میں کیا کیا ہمارے چاؤ نہیں
لے کے دل یوں کہے ہے چتون میں
اب مری بزم میں تم آؤ نہیں
درد پنہاں سے جی ہی نکلے ہے
کیا کہیں تم سے کچھ چھپاؤ نہیں
گر سفر کو سدھارے ہو تو آؤ
جا کے واں چھاؤنی تو چھاؤ نہیں
کیونکہ جرأتؔ لگائیں ہم لگا
کہ فرشتے کا واں لگاؤ نہیں
اور تو اور چوری چوری سے
بات کر لینے کا بھی داؤ نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |