وصل سے تب بھرے ہمارا پیٹ
وصل سے تب بھرے ہمارا پیٹ
پیٹ سے جب ملے تمہارا پیٹ
تھک گئے ہم تو بھرتے بھرتے اسے
کھاتے کھاتے کبھی نہ ہارا پیٹ
صاف دریائے حسن کا ہے پاٹ
کیسا دلچسپ ہے تمہارا پیٹ
ناف تیری ہے یار نافۂ مشک
اور فضائے ختن ہے سارا پیٹ
ہوا نظارۂ شکم نہ نصیب
سحرؔ ہر چند ہم نے مارا پیٹ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |