وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو

وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو
by امیر اللہ تسلیم

وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو
الجھے سلجھے مری تقدیر سے شب بھر گیسو

میں نہ مانوں گا یہ ظلمت اسے کس دن ہو نصیب
ہو گئے ہوں گے شریک شب محشر گیسو

کہنے سننے سے اگر وصل ہوا بھی تو کیا
ضد سے بیٹھے وہ بنایا کیے شب بھر گیسو

چاہتے ہیں کہ پریشاں پس مردن بھی رہوں
کھول دیتے ہیں مری گور پر آ کر گیسو

اڑ چلا اور بھی وہ رشک پری زاداں سے
بن گئے حسن کے پرواز کو شہپر گیسو

آرزو ہے کہ شب قدر ہو یا شام امید
کچھ دکھائے نہ خدا تیرے دکھا کر گیسو

یہ بھی تقدیر کے ہیں پیچ وگرنہ تسلیمؔ
مجھ سا آزاد ہو پابند معنبر گیسو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse