وصل میں خوش کبھی دل ہجر میں جلتے دیکھا
وصل میں خوش کبھی دل ہجر میں جلتے دیکھا
رنگ نیرنگ جہاں سے یہ بدلتے دیکھا
اف رے اے درد جدائی ترے صدمے شب ہجر
دل کی آنکھوں سے لہو ہو کے نکلتے دیکھا
داغ پر داغ اٹھائے جو لکھا تھا وہ ہوا
سچ ہے قسمت کے نوشتہ کو نہ ٹلتے دیکھا
کچھ تو ہے لطف محبت میں جو ہوتے ہیں فنا
شمع پروانہ کو ہر بزم میں جلتے دیکھا
دیکھ کر چلئے زمانہ کا نشیب اور فراز
کھا کے ٹھوکر جو گرا پھر نہ سنبھلتے دیکھا
کون ہوتا ہے برے وقت میں اے یار شریک
خاک پر چھوڑ کے تن روح کو چلتے دیکھا
داغ تازہ دئے نیرنگ فلک نے اس کو
باغ عالم میں جسے پھولتے پھلتے دیکھا
وقت کی قدر نہ کی لہو و لعب میں جس نے
عمر بھر دست تأسف اسے ملتے دیکھا
ہو مرے سامنے کیا خاک مقابل کو فروغ
کھوٹا سکہ کہیں بازار میں چلتے دیکھا
فرقت طالب و مطلوب غضب ہے روشنؔ
جان کو جسم سے رک رک کے نکلتے دیکھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |