وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے

وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے
by الطاف حسین حالی

وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے
نہ ملاقات ہے جس سے نہ شناسائی ہے

قطع امید نے دل کر دیے یکسو صد شکر
شکل مدت میں یہ اللہ نے دکھلائی ہے

قوت دست خدائی ہے شکیبائی میں
وقت جب آ کے پڑا ہے یہی کام آئی ہے

ڈر نہیں غیر کا جو کچھ ہے سو اپنا ڈر ہے
ہم نے جب کھائی ہے اپنے ہی سے زک کھائی ہے

نشہ میں چور نہ ہوں جھانجھ میں مخمور نہ ہوں
پند یہ پیر خرابات نے فرمائی ہے

نظر آتی نہیں اب دل میں تمنا کوئی
بعد مدت کے تمنا مری بر آئی ہے

بات سچی کہی اور انگلیاں اٹھیں سب کی
سچ میں حالیؔ کوئی رسوائی سی رسوائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse