وصل کی آرزو کئے نہ بنی
وصل کی آرزو کئے نہ بنی
نہ بنی جستجو کئے نہ بنی
شوق نے ہم کلام کر ہی دیا
ان سے بے گفتگو کئے نہ بنی
جب رکا خون بن گئی دم پر
چاک دل کو رفو کئے نہ بنی
ذلت عشق ہے وہاں عزت
شکوہ آبرو کئے نہ بنی
پاک ہونا ہے رند کو لازم
مے کشی بے وضو کئے نہ بنی
قتل ٹھہرا جو شیوۂ معشوق
ہمیں دل کو لہو کئے نہ بنی
اس کی تصویر سے بھی تھا یہ خوف
داغؔ کو گفتگو کئے نہ بنی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |