وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے
وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے
میں پشیماں ہوں تو کیا وہ نہ پشیماں ہوں گے
آپ مر جاؤں گا تو آ کہ نہ آ او ظالم
آج وہ دن ہے کہ مجھ پر مرے احساں ہوں گے
غیر کی شکل بنیں گے کبھی خود ان کا شوق
ہم بھی دیکھیں تو کہاں تک نہ وہ پرساں ہوں گے
دل جو روٹھا تو منانے سے کہیں منتا ہے
یہ ستم باعث حسرت تجھے اے جاں ہوں گے
آج بہروپ عدو کا ہے بنایا میں نے
اب تو وہ بھی مرے انداز پہ قرباں ہوں گے
ان کو پہنیں گے مرے دشت جنوں کے کانٹے
یہ وہ دامن ہیں کہ آخر کو گریباں ہوں گے
برہمی دوری جاناں میں انہیں ہوگی نسیمؔ
میرے نالے اثر فکر غزل خواں ہوں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |