وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا

وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
by امیر مینائی

وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
حوصلہ دل کا جو تھا دل میں بدستور رہا

عمر رفتہ کے تلف ہونے کا آیا تو خیال
لیکن اک دم کی تلافی کا نہ مقدور رہا

جمع کس دن نہ ہوئے موسم گل میں میکش
روز ہنگامہ تہ سایۂ انگور رہا

گردش بخت کہاں سے ہمیں لائی ہے کہاں
منزلوں وادئ غربت سے وطن دور رہا

راست بازی کر اگر ناموری ہے درکار
دار سے خلق میں آوازۂ منصور رہا

وہ تو ہے چرخ چہارم پہ یہ پچ محلے پر
سچ ہے عیسیٰ سے بھی بالا ترا مزدور رہا

فصل گل آئی گئی صحن چمن میں سو بار
اپنے سر میں تھا جو سودا وہ بدستور رہا

جلوۂ برق تجلی نظر آیا نہ کبھی
مدتوں جا کے وہاں میں شجر طور رہا

زلف و رخ دونوں ہیں جانے سے جوانی کے خراب
مشک وہ مشک نہ کافور وہ کافور رہا

غول صحرا نے مرا ساتھ نہ چھوڑا شب بھر
لے کے مشعل کبھی نزدیک کبھی دور رہا

ہم بھی موجود تھے کل محفل جاناں میں امیرؔ
رات کو دیر تلک آپ کا مذکور رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse