وصل کے لطف اُٹھاؤں کیوں کر
وصل کے لطف اُٹھاؤں کیوں کر
تاب اس جلوے کی لاؤں کیوں کر
گرم جوشی کا کروں شکوہ کہ وہ
کہتے ہیں تجھ کو جلاؤں کیوں کر
کیا کروں ہائے میں بے تاب، وہ شوخ
چین سے پاس بٹھاؤںکیوں کر
ہر بنِ مُو سے دھواں اٹھتا ہے
آتشِ غم کو چھپاؤں کیوں کر
میرے آنے سے تم اٹھ جاتے ہیں
بزمِ دشمن میں نہ آؤں کیوں کر
یاد نے جس کی بھلایا سب کچھ
اس کی میں یاد بھلاؤں کیوں کر
آپ بھایا مجھے رونا اپنا
کہتے ہیں ہائے میں جاؤں کیوں کر
چارۂ غیر سے فرصت ہی نہیں
دردِ دل اس کو سناؤں کیوں کر
زندگانی سے خفا ہوں اپنی
پھر کہو، تم کو مناؤں کیوں کر
اس کے آتے ہی بھڑک اٹھی اور
آتشِ دل کو بجھاؤں کیوں کر
شورِ محشر ابھی چونک اٹھے گا
شیفتہ کو میں جگاؤں کیوں کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |