وصل کے لمحے کہانی ہو گئے
وصل کے لمحے کہانی ہو گئے
شب کے موتی صبح پانی ہو گئے
رفتہ رفتہ زندگانی ہو گئے
غم کے لمحے جاودانی ہو گئے
دولت عہد جوانی ہو گئے
چند لمحے جو کہانی ہو گئے
کیسی کچھ رنگینیاں تھیں جن سے ہم
محو سیر دہر فانی ہو گئے
سکھ بھرے دکھ دکھ بھرے سکھ سب کے سب
واقعات زندگانی ہو گئے
مسکرائے آپ جانے کس لیے
ہم رہین شادمانی ہو گئے
باتوں ہی باتوں میں راتیں اڑ گئیں
ہائے وہ دن بھی کہانی ہو گئے
تم نے کچھ دیکھا خلوص جذب شوق
سنگ ریزے گل کے پانی ہو گئے
فرحتؔ ایسی بت پرستی کے نثار
بت بھی محو لن ترانی ہو گئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |