وطن
مری جان ہو کہ مرا بدن
ترا جلوہ گاہ ہے اے وطن
تری خاک ان کا خمیر ہے
مرے خون میں یہ جھلک تری
مری نبض میں یہ چپک تری
مری سانس تری صفیر ہے
تری خاک جگ کا خلاصہ ہے
تیرا حسن ایک تماشا ہے
تری پھیلی گود کہ باغ ہے
تری خاک پاک ذلیل ہے
تو غلامیوں کی دلیل ہے
تری پود شرم کا داغ ہے
تجھے ماسوا سے گرا دیا
ہمیں ماسوا نے مٹا دیا
ہوئے تفرقوں سے تمام ہم
تجھے جب تلک کہ بھلا رکھا
ہمیں وقت نے بھی مٹا رکھا
بنے گھر میں اپنے غلام ہم
ترے خون ہیں یہ پھٹے پھٹے
ترے پوت ہیں یہ بٹے بٹے
ترے دل جگر ہیں یہ بے وفا
ترا کچھ لہو ہی سفید ہے
کہ عجب طرح کا یہ بھید ہے
نہیں بھائی بھائی سے آشنا
نہیں غیر کا ہمیں کچھ گلا
کہ غلامیوں کا یہ پھل ملا
ہمیں تفرقہ کے جنون سے
ترے دودھ میں مری پیاری ماں
نہیں درد کی کوئی بجلیاں
کہ ملا دے خون کو خون سے
ہمیں بھائیوں سے غرور ہیں
ترے جہل و وہم میں چور ہیں
کہ جو کام ہیں سو خطا کے ہیں
کہیں ذات پات کی لاگ ہے
کہیں دین دھرم کی آگ ہے
کہیں بیر مفت خدا کے ہیں
جنہیں پیت ہے انہیں جیت ہے
یہی جگ میں جیت کی ریت ہے
ترے پوت اپنوں سے غیر ہیں
ہمیں غیریت یہ مٹانی ہے
ہمیں جیت آپ پہ پانی ہے
اسی گھر کے غیر سے غیر ہیں
ترے پوت بھائی ہیں بھائی ہوں
ترے دل سے سب ہی فدائی رہوں
کہ تو آپ اپنی مثال ہو
ترے زور کی یہی دھاک ہو
کہ جہاں برائی سے پاک ہو
ترا علم حق کا کمال ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |