وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو

وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو
by ریاض خیرآبادی

وعدہ تھا جس کا حشر میں وہ بات بھی تو ہو
یہ سن کے کس ادا سے کہا رات بھی تو ہو

ہم لیں بلائیں زلف کی وہ رات بھی تو ہو
آئے مزے کی رت کہیں برسات بھی تو ہو

گزرے یوں ہی تو توبہ کے دن اب سوا پیوں
ساقی ذرا تلافئ مافات بھی تو ہو

اظہار آرزو کوئی ایسی خطا نہ تھی
کیوں تیوریاں چڑھی ہیں کوئی بات بھی تو ہو

پاپوش ان حسینوں کی آتی ہے میرے گھر
ان کی نظر میں کچھ مری اوقات بھی تو ہو

مینا کی طرح جا کے ابھی سر جھکائیں ہم
پیر مغاں سا قبلۂ حاجات بھی تو ہو

ہم میکدے کو چھوڑ کے کعبے کے ہو رہیں
کعبے میں اس طرح کی مدارات بھی تو ہو

بیعت کو سوئے شیخ بڑھیں گے ہزار ہاتھ
حضرت سے کچھ ظہور کرامات بھی تو ہو

کہنے کو اٹھ رہے گی ستم گر سے کوئی بات
محشر کے روز مجھ سے ملاقات بھی تو ہو

بنت عنب بچھائے گی دامن پئے نماز
زاہد مرید پیر خرابات بھی تو ہو

تم کو ریاضؔ جانتے ہیں خوب یہ حسیں
جتنے ہو نیک اتنے ہی بد ذات بھی تو ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse