وعدہ کبھی سچا کوئی کرتا ہی نہیں ہے
وعدہ کبھی سچا کوئی کرتا ہی نہیں ہے
اندیشۂ فردا تو گزرتا ہی نہیں ہے
دامن کی شکن دور سے لیتی ہے بلائیں
بل یار کے ابرو کا اترتا ہی نہیں ہے
دل سے تو مرے سینے کے پھر داغ ہی اچھے
کم بخت ابھارے سے ابھرتا ہی نہیں ہے
سب بھول گئے اس کو ترے عہد ستم میں
اب شکوۂ گردوں کوئی کرتا ہی نہیں ہے
جو جانتے ہیں بڑھ کے نشیمن سے قفس کو
پر ایسوں کے صیاد کترتا ہی نہیں ہے
کیا چیز ہے اے بادہ کشو موسم گل بھی
اس دور میں توبہ کوئی کرتا ہی نہیں ہے
اپنے ستم و جور اسے لاکھ سکھاؤ
درباں سے تمہارے کوئی ڈرتا ہی نہیں ہے
یوں پسنے کو دل لاکھ پسیں برگ حنا پر
وہ ہاتھ کبھی خون میں بھرتا ہی نہیں ہے
کیا آ گئی اس میں دل بیتاب کی الجھن
گیسو ہے کسی کا کہ سنورتا ہی نہیں ہے
سمجھا ہے اثر کوئی بلا آہ کو میری
ڈرتا ہے وہ گردوں سے اترتا ہی نہیں ہے
جب تک کوئی آئے نہ لب بام نکھر کر
رنگ شفق شام نکھرتا ہی نہیں ہے
دیوانہ ریاضؔ اوروں سے کیا بات کرے گا
معشوقوں سے تو بات وہ کرتا ہی نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |