وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے

وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
by امیر مینائی
295069وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہےامیر مینائی

وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
ہو نہ ہو اس میں بھی کوئی گھات ہے

خلق ناحق درپئے اثبات ہے
ہے دہن اس کا کہاں اک بات ہے

بوسۂ چاہ زنخداں غیر لیں
ڈوب مرنے کی یہ اے دل بات ہے

گھر سے نکلے ہو نہتے وقت قتل
یہ بھی بہر قتل عاشق گھات ہے

میں نے اتنا ہی کہا بنواؤ خط
یہ بگڑنے کی بھلا کیا بات ہے

بعد مدت بخت جاگے ہیں مرے
بیٹھے ہیں سونے کو ساری رات ہے

کیا کروں وصف بتان خودپسند
ان سے بڑھ کر بس خدا کی ذات ہے

باتوں باتوں میں جو میں کچھ کہہ گیا
ہنس کے فرمانے لگے کیا بات ہے

حرف مطلب صاف کہہ سکتا نہیں
ہے ادب مانع کہ پہلی رات ہے

مجھ سے ہو اظہار الفت واہ وا
آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے

رو رہے ہیں ہم ملا دے لب سے لب
مے کشی ہو ساقیا برسات ہے

زچ ہے تیری چال سے رفتار چرخ
مہر رخ سے بازیٔ مہ مات ہے

کیسی کٹتی ہے سیہ بختی میں عمر
رات سے دن دن سے بد تر رات ہے

چھیڑتا ہے دل کو کیا اے درد ہجر
خود گرفتار ہزار آفات ہے

اے غنی دے سیم و زر وقت بلا
مال دنیا جان کی خیرات ہے

گر جگہ دل میں نہیں پھر اس سے کیا
یہ دوشنبے کی یہ بدھ کی رات ہے

صاف کہہ دے تو یہاں آیا نہ کر
یار یہ سو بات کی اک بات ہے

لخت دل ہیں میرے کھانے کو امیرؔ
بس انہیں ٹکڑوں پہ اب اوقات ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.