وقت کی ڈبیا
اچھی اماں وقت کی ڈبیا جو کھل جائے کہیں
اور یہ گھنٹے اور منٹ سارے نکل کر بھاگ جائیں
تب مجھے مکتب نہ جانے پر برا کہنا نہ تم
تب تو مکتب کا نہ ہوگا وقت ہی گویا کبھی
جس قدر گھڑیاں ہیں دنیا بھر میں وہ تو سب کی سب
دیکھ لینا دس بجانا ہی نہ جانیں گی کبھی
دیکھو اماں اب جو سونے کے لیے لیٹوں نہ میں
تم نہ اب مجھ پر خفا ہونا خطا میری نہیں
کیسے سوؤں میں نشاں تک بھی نہ ہو جب رات کا
میری اماں اب تو راتیں ساری غائب ہو گئیں
اچھی اماں آج تو اک بات میری مان لو
بس کہانی پر کہانی مجھ سے تم کہتی رہو
تم کہو گی یہ کہانی ختم ہوتی ہی نہیں
ختم ہو جائے کہانی رات جب آگے بڑھے
دیکھ لینا آج سونے کو نہ ہوگی دیر کچھ
وقت کی ڈبیا کے کھل جانے سے راتیں اڑ گئیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |