319612وہرشید جہاں

میری اس سے شفا خانے میں ملاقات ہوئی، وہ بھی دوا لینے گئی تھی اور میں بھی۔ اس کو دیکھ کر سب عورتیں بچنے لگیں۔ ڈاکٹر نے بھی اپنی کراہت کا اظہار آنکھیں بند کر کے کیا۔ گھن تو مجھ کو بھی آئی لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا، وہ بھی مسکرائی۔ کم از کم کوشش تو کی۔ اس کی ناک سرے سے غائب تھی۔ اور دو بڑے بڑے لال لال سے چھید اس کی ناک کی جگہ پر تھے۔ ایک آنکھ بھی نہ تھی اور دوسری سے بھی بغیر گردن کے سہارے نہ دیکھ سکتی تھی۔

اور پھر تھوڑی دیر بعد دوا خانے کی کھڑکی پر میری اس سے مڈبھیڑ ہوئی۔ اس نے غن غنا کر مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ کہاں سے تشریف لاتی ہیں؟‘‘ میں نے اپنا پتہ بتا دیا۔ وہ دوا لے کر چلی گئی۔ اور مجھ کو کمپونڈر نے بغیر میرے پوچھے بتانا شروع کردیا۔ ’’یہ بدمعاش عورت ہے، رنڈی ہے رنڈی۔ سڑ سڑ کر مر رہی ہے۔ اب آئی ہے علاج کرانے، ڈاکٹر کا تو دماغ خراب ہے کہ نسخہ لکھ دیتی ہے۔ نکال باہر کریں سسری کو!‘‘

میں ایک لڑکیوں کے اسکول میں استانی تھی۔ نئی نئی کالج سے نکلی تھی، دنیا میرے قدموں سے لگی تھی، مستقبل میرے سامنے مثل چمن کے تھا اور جس کا ہر پودا گلاب اور چنبیلی سے کم نہ تھا۔ مجھ کو ساری دنیا ایک چاندنی رات اور اس میں دریا کا بہاؤ جو کہیں نرم خرام اور کہیں آبشار معلوم ہوتا تھا۔ میں خوش تھی، تکلیف، غم میں جانتی ہی نہ تھی کیا ہو تے ہیں۔ پڑھانا بھی وقت کانٹنے کا بہانہ تھا۔ ساری خودی اس زمانے میں ایک انتظار تھی۔

چلمن اٹھی اور وہ کالج کے دفتر میں داخل ہو رہی تھی۔ میں حیرت سے کھڑی ہو گئی اور بغیر سوچے سمجھے عادت کے مطابق بول اٹھی ’’تشریف رکھئے‘‘ پہلے تو جھجکی اور پھر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک موتیا کا پھول تھا۔ اس نے میز پر میرے سامنے رکھ دیا۔ مجھ کو اس پھول کو اٹھاتے ہوئے گھن ضرور آئی لیکن اپنے اوپر جبر کر کے اس کو اپنے بالوں میں لگا لیا۔ وہ مسکرائی اور اٹھ کر چلی گئی۔

اب یہ روز کا معمول تھا۔ وہ روز چھٹی کے وقت چلمن اٹھا کر اندر آتی۔ میں کہتی تشریف رکھئے۔ وہ بیٹھ جاتی، کوئی نہ کوئی پھول میرے سامنے رکھ دیتی۔ میری ہم عمر استانیاں اس کے لئے چھیڑتیں۔ جس کرسی پر وہ بیٹھتی تھی اس پر کوئی نہ بیٹھتا تھا۔ اس کی صورت ہی ایسی گھناؤنی تھی۔ میں خود اس کرسی کو کبھی نہ چھوتی تھی۔ بڑھیا نصیباً بھی روز اس کے جانے کے بعد بڑبڑایا کرتی تھی۔ یہ نئی استانی اچھی آئی ہیں۔ اس گندی سندی کو منہ لگالیا ہے، ہم اس کی کرسی کیوں جھاڑیں۔

پرنسپل بھی ناک بھوں چڑھاتیں اور کہتیں۔’’تم اس کو یہاں اسکول میں کیوں بلاتی ہو؟ یہاں لڑکیوں کے ماں باپ ضرور اعتراض کریں گے کہ ایسی فاحشہ عورت آ جاتی ہے۔‘‘ دوسرا دن ہوتا اور پھر وہ آجاتی اور میں پھر کہتی ’’تشریف رکھئے‘‘ اب وہ ذرا دیر تک بیٹھتی اور میری طرف دیکھتی رہتی، ہماری کبھی باتیں نہیں ہوئیں۔ کیا یہ سمجھتی ہے کہ مجھ کو اس کی حقیقت کا علم نہیں؟ وہ صرف دیکھتی رہتی، اسی اپنی ایک ٹیڑھی سی آنکھ سے اور بغیر ناک والے گھناؤنے چہرے سے۔ کبھی کبھی مجھ کو شبہ ہوتا کہ اس کی آنکھ اشک آلود ہے۔ وہ کیا سوچتی رہتی ہے؟ میرا دل چاہتا ہے کہ پوچھ لوں لیکن کہاں سے شروع کرتی؟

اکثر تو یہ ہوا کہ جہاں وہ آئی اور استانیاں اٹھ کر چل دیتیں اور انگریزی میں مجھ کو دق کرتی رہتی تھیں۔ ’’صفیہ کی وہ آئی ہیں، بھئی چلو لائبریری میں بیٹھیں گے۔ کم بخت کی شکل تو دیکھو!‘‘

کوئی کہتی، ’’بھئی صفیہ اس منحوس کو دیکھ کر تو مجھ سے روٹی بھی نہیں کھائی جاتی قے آتی ہے۔‘‘

’’لیکن چنی بھی تو ظالم نے خوب ہے۔ تم سب میں نمبر ایک۔‘‘

’’اس کم بخت سے تو پردہ کرنا چاہئے‘‘ یہ دینیات کی موٹی بڑھیا استانی جل کر فرماتیں۔

میں اپنا کام کرتی رہتی اور وہ دیکھتی رہتی۔ مجھ کو بے چینی ہوتی۔ کیا دیکھتی ہے؟ کیا سوچتی ہے؟ کیا یہ بھی کبھی میری طرح تھی۔ میرے روئیں کھڑے ہوجاتے۔

یہ کیوں آتی ہے؟ کیا یہ نہیں جانتی کہ لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور گھن کھاتے ہیں۔ اس کی ناک بھی برابر ان لال چھیدوں سے ٹپکتی رہتی ہے۔ اور میں روز سوچتی اس کو منع کردینا چاہئے۔ پرنسپل صاحب ٹھیک تو کہتی ہیں، لڑکیاں الگ بڑبڑاتی ہیں۔ استانیاں قے کرتی پھرتی ہیں۔ لیکن جب وہ دوسرے دن آتی تو میں کرسی پیش کرکے پھر کہتی ’’تشریف رکھئے۔‘‘

کیا اس کے پاس آئینہ نہیں ہے۔ کیا اس کو معلوم نہیں کہ یہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ کوئی اس کو بتا کیوں نہیں دیتا۔ اس کا کوئی ہے بھی یا نہیں۔ یہ کہاں رہتی ہے۔ کہاں سے آجاتی ہے۔ کیا یہ سمجھتی ہے کہ میں اس کو صرف ایک بیماری سمجھتی ہوں۔ میرا اسکول میں ایک عجیب مذاق بنتا ہے۔ مذاق ہی نہیں ایک توہین سی ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ کوئی پھول میرے سامنے رکھ دیتی، میں سر میں لگا لیتی اور وہ اپنی بھیانک مسکراہٹ سے مسکرادیتی۔

یہ مجھ کو کیوں دیکھا کرتی ہے؟ یہ کون ہے؟ یہ کون تھی؟ کہاں پیدا ہوئی اور کیسے اس حال کو پہنچی؟ میرے پاس آکر اس کو کیا محسوس ہوتا ہے، ایک تکلیف یا سکون؟

ایک روز جب وہ باہر نکلی تو اس نے جھانک کر ناک چھٹکی اور گندگی دیوار سے لگا دی، جو نصیباً چھوٹی بچیوں کی تختیوں پر ملتانی مٹی مل رہی تھی اور عرصے سے خار کھائے بیٹھی تھی۔ ایک دم جوانوں کی پھرتی سے اٹھی، آکر سیدھی ایک تختی اس کی کمر پر جمائی اور وہ گھبرا گئی۔ بوا نصیباً وہ سب تہذیب جو انھوں نے اسکول کی بیس سال کی نوکری میں سیکھی تھی۔ اور جو ہمیشہ لڑکیوں کو تمیزدار بننے کی نصیحت کیا کرتی تھیں آج سب بھول گئیں۔ اور وہی گلی والی نصیباً بن گئیں۔ ’’حرامزادی، رنڈی،آئی ہے بڑی کرسیوں پر بیٹھنے،دن لگ گئے، کل چوک میں بیٹھتی تھی۔ آج جو کٹ کٹ کر گوشت گررہا ہے تو چلی بیگم بننے۔۔۔‘‘

ایک لات، دوسری لات، تیسرا مکا۔۔۔

میں بھاگ کر باہر نکلی اور نصیباً کو پکڑا۔ ’’ہائیں ہائیں کیا کرتی ہو؟‘‘ لڑکیوں کا ایک ٹھٹ لگ گیا۔ استانیاں بھی بھاگی چلی آرہی تھیں۔ نصیباً تو آپے میں ہی نہ تھی۔

’’تم نے ہی تو سر چڑھایا ہے کہ موری کی اینٹ چوبارے چڑھی ساری دیوار گندی کردی۔ بیس سال سے نوکر ہیں، ہم نے نہیں دیکھا کہ رنڈیاں اسکول میں آئیں۔ میں ہرگز اب یہاں نہیں رہوں گی۔ بلا لو اور کوئی عورت جو۔۔۔‘‘ ایک بار بپھر کر اس کی طرف بڑھیں۔ لوگوں نے بڑھیا کو سنبھال لیا۔

میں نے جھک کر اس کو اٹھایا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ےتھی۔ میں پکڑ کر اس کو پھاٹک کی طرف لے گئی۔ اس کی کنپٹی سے خوب بہہ رہا تھا۔ غالبا وہ بھی اسے نہ معلوم ہوا تھا۔

روتے میں منہ چھپاکر غن غنائی، ’’اب تو آپ کو معلوم ہوگیا۔‘‘ اور چلی گئی۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.