وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے
by صفی اورنگ آبادی

وہی ہوتا ہے جو محبوب کو منظور ہوتا ہے
محبت کرنے والا ہر طرح مجبور ہوتا ہے

جہاں جاتے ہیں ہم اس کی گلی سے ہو کے جاتے ہیں
اگرچہ راستہ اس راستے سے دور ہوتا ہے

نہیں رکتے گھڑی بھر طالب دیدار کے آنسو
یہ ظالم شوق گویا آنکھ کا ناسور ہوتا ہے

کوئی مجنوں کی عزت عشق کی سرکار میں دیکھے
بڑی خدمت پہ ایسا آدمی مامور ہوتا ہے

حسینوں کا تنزل بھی نہیں ہے شان سے خالی
بڑھاپے میں بھی ان لوگوں کے منہ پہ نور ہوتا ہے

وہ ایسی خندہ پیشانی سے ہر معروضہ سنتے ہیں
یہ سمجھے عرض کرنے والا اب منظور ہوتا ہے

تجھے مشہور ہونا ہو تو عاشق کی برائی کر
برائی سے بہت جلد آدمی مشہور ہوتا ہے

ہمارے گھر وہ آ کر تھک گئے ہاں کیوں نہ تھک جاتے
نیا رستہ جو ہو نزدیک بھی تو دور ہوتا ہے

جو تم وابستۂ دامن کو سمجھے داغ بدنامی
تو اب کیا دور کر سکتے ہو اب یہ دور ہوتا ہے

بڑا احسان ہوگا میرے دل کا خون کر ڈالو
یہی مجبور کرتا ہے یہی مجبور ہوتا ہے

مجھے تم جانتے ہو عقل سے معذور ہاں بے شک
محبت کرنے والا عقل سے معذور ہوتا ہے

حسین ہر ایک ہو سکتا نہیں بے شک صفیؔ بے شک
وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse