وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا

وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا
by داغ دہلوی

وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا
رقیب پر مجھے بے اختیار پیار آیا

یہ حال تھا شب وعدہ کہ تا بہ راہ گزر
ہزار بار گیا میں ہزار بار آیا

ترا ہی کوچہ ٹھکانہ ہے خاکساروں کا
جو زندہ آ نہ سکا میں مرا غبار آیا

مزے اڑائے وہاں خوش رہا لیا انعام
یہاں جو نامہ بر آیا تو اشک بار آیا

گزر گئے اسی گردش میں اپنے لیل و نہار
شب فراق گئی روز انتظار آیا

اڑائے ہیں ملک الموت نے بھی تیرے ڈھنگ
ہزار بار بلایا تو ایک بار آیا

خدا کے واسطے جھوٹی نہ کھائیے قسمیں
مجھے یقین ہوا مجھ کو اعتبار آیا

کہاں تھے شب کو تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ نہیں
کوئی پکارنے والا بہت پکار آیا

کمال عشق کو فرہاد و قیس کب پہنچے
وہ پختہ کار ہے دل جس کا بار بار آیا

وہ کیوں ہوئے مرے مشتاق خیر ہو یا رب
طلب میں کل ہی خط آیا تھا آج تار آیا

پلا دے آج سر شام مجھ کو اے ساقی
کہ تیری بزم میں اک میں ہی روزہ دار آیا

ڈرے جو حشر میں وہ مجھ کو دیکھتے ہی کہا
مرا رفیق مرا داغؔ جاں نثار آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse